Friday

عوام کون ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبدالرزاق قادری

عوام کو ریلیف دیا جائے گا۔ یہ وہ جملہ ہے جسے سُن سُن کر اور پڑھ پڑھ کر ہم سب تنگ آگئے ہیں۔ جیسی عوام ویسے حکمران یہ بھی مشہور معروف جملہ ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے ہرسیاسی پارٹی کے قائدین عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کرتے ہیں۔ اور پہلے سے حکومت کرنے والے کوچور اورڈاکو کہتے ہیں۔ جب کسی پارٹی کو حکومت مل جا تی ہے تو یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اِتنے سالوں سے بگڑا ہو ا نظام دو چاردن میں تو ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ تھوڑا عرصہ گزر جانے کے بعد اخبارات کے آدھے صفحے یا چوتھائی صفحے پر اِس قسم کے اشتہار ات نظروں سے گزرتے ہیں جن میںدعوے درج ہو تے ہیں کہ فلاں فلاں پر اجیکٹ پر کام ہوا اور کامیاب رہایوں عوام کو ہماری حکومت میں ریلیف مِلا۔ ساتھ ہی اُسی اخبار پرمدمقابل پارٹی کے لیڈر کابیان ہوتا ہے کہ حکمران چوروں نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہوا ہے۔ اوریہ ڈرامہ جاری رہتاہے۔ زیادہ پُرلطف اور اذیت ناک صورت حال اُس وقت ہو تی ہے جب وفاقی حکومت صوبائی کو اور صوبائی والے وفاقی کوالزام دیتے ہیں۔ حکمران بھی خود پر لگنے والے الزامات کے جوابات دینے کے ماہر ہیں۔ کئی بار ایسے ہواکہ جو بیان چند سال پہلے کسی ایک صدر یا وزیر نے دیا ہے تھا وہی بیان جاری کر کے نئے دور کا صدراپنی ذات اوراپنی پارٹی پر لگنے والے الزام کی تردید کرتاہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ سارے بیانات اور اشتہارات بیورو کر یسی کی جانب سے لکھ دئیے جاتےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمران یعنی سیاست دان عارضی ہوتے ہیں۔ اُنہیں اس طرح کے بیانات جاری کرنے کا شعور نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ پاکستان میں ایک بار الیکشن کے بعد نیا وزیراعظم منتخب ہوا۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نفرنس میں اُسے وہی تقریر پڑھنے کے لیے دے دی گئی جو پچھلے سال دوسری پارٹی کے پُرانے وزیر اعظم نے پڑھی تھی۔ اس میں وہی غلطیاں تھیں جو پچھلی بار تھیں۔ اس سے بیوروکریسی والے دعوے کی تصدیق ہو تی ہے۔ کچھ حضرات اس مسئلے کاحل ٹیکنو کریسی کو قرار دیتے ہیںجس میں ہر شعبے کا پڑھا لکھاکام کرنے والا ماہر بندہ اپنے شعبے کا فل پاور وزیر ہو یا ڈاکٹر رضوان نصیر کی طرح کو ئی عہدہ رکھتاہو۔ لیکن اُس کا اختیار مکمل ہو۔ وہ سیاست دانوں کا محتاج نہ ہو۔ اور اُس پر بیورو کریسی کا راج نہ ہو۔ لوگ کہتے ہیں کے یہ بیوروکریسی ہے کیا چیز؟ تولیجیئے اس کا جواب یہ ہے کہ ہر سال مقابلے کے جو امتحانات بی ۔اے کےبعد ہوتے ہیں۔ ان کو سی۔ایس ۔ایس بھی کہا جاتا ہے اور بھی بہت سے نام ہیں مقابلے کے امتحانات کے۔ ایک عام آدمی کا بیٹا بھی اچھی خاصی محنت کر کے ایک اعلیٰ عہدے پر فا ئز ہو سکتا ہے۔ امتحان کے بعد انٹرویو ہوتا ہے۔ جو وہاں سے پاس ہو کر اس کی نوکری پکی۔ لیکن سنا ہے اب اس شعبہ میں بھی رشوت اور سفارش کا دور دورہ ہے۔ جب وہ نوجوان افسر بن جاتے ہیں تو پولیس میں، سیکر یٹیر یٹ میں اور دیگر اداروں میں تعینات ہو جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کے تمام وزیروں کو وہی مشورے دیتے ہیں وہ سول انتظامیہ کہلاتے ہیں۔ اخباروں میں حکومتی کا رکردگی کے دعوے والے اشتہارات بھی وہی لگواتے ہیں اور ان اشتہارات کا خرچہ عوام کی جیب سے یعنی ٹیکس اور گرانٹ سے نکالا جاتا ہے۔ کئی کئی مکوں میں چلنے وا لی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی عوام کے پیسوںسے ان کو دل کش اشتہارات دکھا کر ان کوا پنی مصنوعات خریدنے کی دعوت دیتے ہیں۔ پھر ان کا کسی دوسری کمپنی سے مقا بلہ نظر آتا ہے۔ حالا نکہ بہت ساری تجارتی حریف کمپنیاں آپس میں ایک گھر کی ہوتی ہیں۔ ان کا ما لک یا تو ایک ہی ہوتا ہے یامختلف شراکت داروں کے حصص ہوتے ہیں انہوں نے بہت ساری مصنوعات بازار میں پہنچائی ہوتی ہیں تا کہ جو بھی چیز بکے گی فائدہ ایک ہی گھر کو ہوگا حالانکہ عوام کا آپس میں ایسا مقابلہ رہتا ہےکے ہم اچھی پراڈکٹ استعمال کرتے ہیں یا تم! ایک ایزی لوڈ کرنے والا بھی شخص اپنےالگ پیسے کاٹتا ہے! پھل بیچنے والا کسی کو معاف نہیں کرتا! عام لوگوں کے بیٹے فوج میں ہیں! عوام کے سپوت پولیس میں ہیں! سکول بھی عوام کے اور طلبہ بھی عوام کے! بسوں والے بھی عوام، لٹنے والے بھی عوام لوٹنے والے بھی عوام۔ یہ درست ہے کہ واپڈا کے ملازم بے بس ہیں انہیں جتنا آرڈر ہوتا ہے اتنی دیر بجلی چھوڑیں گے لیکن ان کو گالیا ں دینے وا لوں کے بیٹے واپڈا میں نوکری کرتے ہیں۔ رشوت دے کر نوکری حاصل کرنے والے بھی عوام کے بیٹے اور کرسی پر بیٹھ کر خود رشوت لینے والے بھی وہی۔ بے روز گار بھی عوام کے بیٹے اور بے روزگاری سے تنگ آکر ڈاکو بننےوالے بھی وہی عوام کے بیٹے۔ ان کو چھوٹ دے کر عادی مجرم بنا دینے والے پولیس اور سیاست دان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ سبھی آپس میں دست و گریبان ہیں۔ آج تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ عوام کون ہیں؟ جن کو ریلیف دیا جا تا ہے کیا وہ جعلی ڈگریوں اور دوسری شہرت رکھنے والے حکمران ہیں؟ تا کہ بیرون ملک ان کی بگڑی ہوئی اولادوں کے عیش و آرام کا پورا پورا خیال رکھا جا سکے ۔ اور ان کا خرچہ حسب دستور چلتا رہے اور عوام کو ریلیف کا جا نسہ دے کر حکمرانی کا کا روبار جاری رکھا جاسکے ۔ کیاسرمایہ دارانہ نظام جو اس دنیا پر نافذ ہے۔ وہ اس سارے معاملے کی جڑ ہے؟ کیونکہ دنیا جہاں کے سیاست دان یا تو خود سرمایہ دار ہیں یا سرمایہ داروں کے ہاتھوں کا کھلونا ہیں۔ اس نظام میں دنیا کے تمام وسائل صرف چند ہاتھوں کی میل ہیں۔ باقی اربوں لوگ ان کے محتاج بن چکے ہیں۔ ہماری تعلیم وتربیت بھی اسلامی طرز پر اسی وجہ سے نہیں ہو پاتی کہ ہر قسم کے وسائل پر نظام کا قبضہ ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کا طوطی ہرجگہ بو ل رہا ہے۔ چاہے وہ بادشاہت ہو یاجمہوری نظام کے دعوے دار ممالک سارے کے سارے اسی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ صاحب ثروت درد دل رکھنے والے بااختیارمسلمان حلقوں کو چاہیے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔ دھوکا دینے والے خوب صورت سُراب سے باہر جھا نکیں۔ اوراس ہیرپھیر کو جانچیں پرکھیں۔ اور مخلص ہو کر اس باطل نظام کو بھگا کر اسلامی نظام حیات کوخود پرنافذ کریں۔ اوراسلامی لٹریچر کوعام کریں ۔ جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لاکر شعور بیدار کرنےکی مہم چلائیں۔ دنیاوی عہدوں اورلالچ کوپس پشت ڈال دیں۔ دینی رہنمائوں سے آگاہی حاصل کریں۔ کیونکہ اسی دین کا سایہ ایک ایسی پناہ گاہ ہےجس میں اپنے پرائے سبھی کو سکون حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ اسی میں انسانیت کی بھلائی ہے۔ اسی میں دکھی لوگوں کے مرہم کا راز نہاں ہے۔ اسی میں دنیا کا امن ہے۔ اسی میں سب خوشیاں ہیں اورعوام کو ریلیف ہے۔

No comments:

Post a Comment