کیایہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے
عبدالرزا ق قادری
گرمی کے موسم میں کبھی کبھی ہو ا کا جھونکا آئےتو دیہاتوں میں درختوں کے سائے تلے بیٹھے لو گ سکھ کا سانس لیتےہیں ۔ اوراپنی دوپہر کو گزارتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ہو ا بالکل بند ہوجائےاور جس اس قدر شدید حبس ہو کہ دم گھٹتاہو ا محسوس ہو۔ سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا ہو۔ سانس لینے میں دشواری ہو تو وہاں سیانے لوگ کہہ دیتے ہیں آج یوں لگتاہے کہ آندھی آئے گی۔ کئی گھنٹوں کے طویل کرب انگیز دورانیے کے بعد شام سے پہلے کسی ایک طر ف سے گردکے آثار نظر آتے ہیں۔ جوتھوڑی ہی دیر میں آندھی اوربارش کے طوفان کی صورت میں سر پر آپہنچتا ہے۔ پھر زور کی ہوا، تھپیڑے دار بارش اور تاریک شام کے مناظر چھا جاتےہیں۔ لوگ دوڑ کر گھروں میں گھس جاتے ہیں۔ پہلے گرمی سے چھٹکا رے کا شکر اداہوتاہے۔ پھر جب شدید طوفان تھمنے کا نام نہ لے تو اس سے خوف آناشروع ہو جاتاہے۔چند گھنٹوں کے لیے سارا نظام درہم برہم ہو جاتاہے۔جل تھل کا عالم بن جاتاہے۔اس بارش سےدرختوں ،فصلوں اور مویشیوں کی کثافتیں دُھل جاتی ہیں۔پرندوں کے گھونسلے ٹوٹ کر برباد ہوجاتے ہیں۔ان غریبوں کے
بچے اورانڈے تباہ ہو جاتے ہیں۔مویشی کانپنا شروع ہو جاتے ہیں ۔لوگوں کے لیے یہ مشکل ہو جاتاہےاپنے جانوروں کو بروقت چارے کا بندوبست کرکے دے چھوٹے چھوٹے بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ خوب تباہی ہوتی ہے۔رات کے کسی پہر بارش رُک جاتی ہےبادل کسی دوسرے علاقے کا رُخ کرتےہیں۔اگلی صبح بڑی شاندار ہوتی ہے۔ہر چیز صاف ستھری ہوتی ہے۔وہی بے گھر پرندے خوشی کے نغمے گارہے ہو تے ہیں۔اُنہیں مویشیوں کے انگ انگ سے اتھراپن دِکھتاہے۔سبزہ خوش نما اور فصلیں سیراب شدہ نظرآتی ہیں۔ہزاروں روپے کے ڈیزل کی بچت ہو جاتی ہے۔کیونکہ بارشی پانی سے فصلیں مفت میں پانی پانی ہو جاتی ہیں۔ ریتلے علاقے تہہ ہو جاتے ہیں۔ندیاں اوردریاسینکڑوںمیلوں تک پانی لے جانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ کسان کا چہرہ تمتا اُٹھتا ہے۔ بچوں کے چہروں پر رونق ہوتی ہے۔ شکر کے نوافل ادا ہوتے ہیں۔ کسی شب میں160سحر ہو جاتی ہے۔ اس کی روشنی سے دور تک اُجالا ہو جاتاہے۔ کل والی بارش او ر طوفان سے ناراض لو گ اس کی سختی کو بھول جاتے ہیں۔اوراُس کے نیتجے میں آنے والی نئی صبح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بچے اورانڈے تباہ ہو جاتے ہیں۔مویشی کانپنا شروع ہو جاتے ہیں ۔لوگوں کے لیے یہ مشکل ہو جاتاہےاپنے جانوروں کو بروقت چارے کا بندوبست کرکے دے چھوٹے چھوٹے بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ خوب تباہی ہوتی ہے۔رات کے کسی پہر بارش رُک جاتی ہےبادل کسی دوسرے علاقے کا رُخ کرتےہیں۔اگلی صبح بڑی شاندار ہوتی ہے۔ہر چیز صاف ستھری ہوتی ہے۔وہی بے گھر پرندے خوشی کے نغمے گارہے ہو تے ہیں۔اُنہیں مویشیوں کے انگ انگ سے اتھراپن دِکھتاہے۔سبزہ خوش نما اور فصلیں سیراب شدہ نظرآتی ہیں۔ہزاروں روپے کے ڈیزل کی بچت ہو جاتی ہے۔کیونکہ بارشی پانی سے فصلیں مفت میں پانی پانی ہو جاتی ہیں۔ ریتلے علاقے تہہ ہو جاتے ہیں۔ندیاں اوردریاسینکڑوںمیلوں تک پانی لے جانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ کسان کا چہرہ تمتا اُٹھتا ہے۔ بچوں کے چہروں پر رونق ہوتی ہے۔ شکر کے نوافل ادا ہوتے ہیں۔ کسی شب میں160سحر ہو جاتی ہے۔ اس کی روشنی سے دور تک اُجالا ہو جاتاہے۔ کل والی بارش او ر طوفان سے ناراض لو گ اس کی سختی کو بھول جاتے ہیں۔اوراُس کے نیتجے میں آنے والی نئی صبح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
طوفان آنے کے پیش خیمہ میں گھٹن حبس ہو ا کی بندش اورسکوت کاتذکرہ ہو تا ہے۔کچھ اسی طرح کاحال آج انسانیت کا مجموعی طورپر ہے۔ اس پر کالا قانون راج کر رہاہے۔ حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ عدل کے نام پرظلم کیا جارہاہے۔ جدت کے نام پر بدی فروغ پارہی ہے۔ نظام نے انسان کو مشین بنا دیاہے۔ اُسے بے حس بے بس اوربے جان پُر زے کی طرح استعمال کیا جا رہاہے۔ کہیں سے کیمونزم نے اور لادینت کے سانپ نے سری اُٹھائی ہو ئی ہے کہیں سے اور آزادی اظہاررائے کے ناگ نے پھن پھیلایا ہو ا ہے۔ اُن پر ظالم حکمران مسلط ہیں۔ خود غرضی کے طلسم ہوش رُباکا جادو اُن کے سرچڑ ھ کر بو ل رہاہے ۔خود پرستی کی چکا چوند انہیں پھانسی کے گھاٹ تک لے آئی ہے۔ مال وزر کی ہوس نے ان کے اندر انسان کو ذبح کر دیاہے۔ ایک گہراسکوت ہے۔ تاریکی ہی تاریکی ہے۔کفار ان کو ہائی پوٹینسی کے جھٹکے لگا کر لگا کر میٹھی نیند کی گولی بھی دے ڈالتے ہیں۔وہ درد کے انجکشن سے بلبلا آٹھاہے لیکن گولی کی وجہ سے پھر سوجاتاہے۔ہوش میں آنے کا شعور چھن گیا ہے۔ للکارنے والا کو ئی نہیں۔ ہوش دلانے والا طبیب مفقودہے۔ مسئلے کا حل تلاش کر نے والا معالج عنقا ہے۔ اگرتو یہ درد کے جھٹکے اور بلبلانے کی شدت گرمی کے موسم کی ہلکی پھلکی ہو ا کی مانند ہے تو پھرنہ اُمت مسلمہ سے کو ئی آندھی اُٹھے گی اورنہ ہی کو ئی طوفان تہ وبالا کرے گا، لیکن اگر یہ خاموشی گرمی کی گھُٹن اور حبس کے جیسی ہے تو ان شاءاللہ وہ گھنگھور گھٹائیں ضرور اُٹھیں گی۔ اور وہ طوفان ضرورآئے گا۔ جوکفار کی ہرطرح کی یلغار کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔اُس میں چند مائوں کے گھر پرندوں کے گھونسلوں کی مانند ضرورتباہ ہوں گئے۔ پرندوں کے انڈوں کی طرح انسانوں کے کچھ بیٹے اس طوفان کی زدمیں تو ضرور آئیں گے۔ لیکن اگلی نکھری نکھری صبح کی تازگی میں سارے غم بھو ل جائیں گے۔کروڑوں اربوں لوگوں کو خوش دیکھ کر چند پیاروں کی یاد دل سے محو ہو جائےگی۔وہ سحر ضرورطلوع ہوگی۔اُس کے مرکز کی نشان دہی کاحق سب جہانوں کے مالک کے پاس ہے۔ اور امید کی کرن اورصبح کے ستارے کا انتخاب بھی آسمانی ہی ہو گا۔ لیکن اُس صبح کے ستارے کے منتظر لاکھوں کروڑوں لوگ اس وقت آسمان کو تک رہے ہیں۔ اور پُرامید ہیں۔ وہ صبح ضرور طلوع ہوگی اوران شاءاللہ جلدہوگی۔
No comments:
Post a Comment