Thursday

مفتی اعظم پاکستان

حضرت مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری لاہور میں رہتے ہیں۔ حضرت صاحب 16 فروری 1958 عیسوی کو کوٹ نیناں (تحصیل شکرگڑھ کا ایک گاؤں)میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم جامعہ رسولیہ شیرازیہ بلال گنج لاہور سے علامہ حضرت محمد علی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے اور قریبی سکول سے حاصل کی۔ اور اعلیٰ تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے جبکہ جامعہ پنجاب لاہورسے تاریخ ، اسلامیات اور عربی میں ایم۔اے کی اسناد حاصل کیں۔ آپ اولڈ راوین بھی رہ چکے ہیں اور گولڈ میڈلسٹ بھی ہیں۔ آپ نے تنظیم المدارس کے امتحانات میں بھی ریکارڈ قائم کیے۔ فکری تربیت میں آپ جن مبارک ہستیوں سے بلا واسطہ فیض یاب ہوئے۔ ان میں پیر طریقت حضرت علامہ مولانا ابو محمد عبدالرشید قادری رضوی ، علامہ مولانا مفتی عبدالقیوم ہزاروی ، علامہ مولانا مفتی عبدالحکیم شرف قادری(آپ فرماتے ہیں کہ مجھے قلم چلانا علامہ مفتی عبدالحکیم شرف قادری نے سکھایا)، مفسر قرآن علامہ مولانا فیض احمد اویسی ، علامہ مولانا الشاہ احمد نورانی رحمھم اللہ علیھم اجمعین قابل ذکر ہیں۔ آپ نے اپنی ایک کتاب جنت کا راستہ کا انتساب حضرت علامہ مولانا الٰہی بخش ضیائی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے نام کیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ میں نے احقاق حق اور ابطال باطل کرنا اُن سے سیکھا۔ بالواسطہ طور امامِ اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری ، علامہ ڈاکٹر محمداقبال رحمھم اللہ علیھم اجمعین کی فکر سے متاثر ہیں۔ انہوں نے 19 جولائی 1990 بروز جمعرات داتا دربار کی جامع مسجد سے دینی سوال و جواب کی نشستوں کا آغاز کیا۔ جو کہ فتویٰ کی ایک صورت ہے۔ مسجد میں عوام الناس لکھ کر اور کھڑے ہو کر بول کر سوال و جواب کرتے ہیں۔ لیکن جواب صرف بیانیہ ہوتا ہے۔ درج شدہ نہیں ہوتا۔ 1990 سے سن 2010 تک جو سوالات لکھ کر پوچھے گئے ان کی تعداد چھیانوے ہزار تھی۔ جو کہ اب 2012 تک ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ نیز زبانی طور پر پوچھے جانے والے سوالات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اور ان کا ریکارڈ محفوظ نہیں۔ لیکن آڈیو اور کبھی کبھی ویڈیو کی صورت میں تقریبا بے شمار مواد محفوظ ہے۔ جو کہ ان شاءاللہ آنے والی مسلم امت کے کام آئے گا۔ اسی خدمت کی بناء پر آپ مفتی اعظم پاکستان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے اس ذمہ داری کو عرصہ بائیس سال سے اپنا وظیفہ سمجھ کر سر انجام دیا ہے۔ آپ کی نشستوں کے اوقات یہ ہیں۔ جمعرات ، اتوار: بعد از نماز ظہر جمعرات ، ہفتہ: بعد از نماز مغرب یہ ہفتہ وار چار نشستیں باقاعدگی سے جاری ہیں۔ سوائے تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کے ماہانہ اجتماع کے دن جو کہ ہر شمسی مہینے کی دوسری اتوار کو لاہور میں جامعہ اسلامیہ رضویہ میں منعقد ہوتا ہے۔ یا کبھی اُس دن جب آپ لاہور سے کہیں باہر ہوں۔ ورنہ نشست میں حاضر ہوتے ہیں۔ علامہ محمد ارشد القادری دامت برکاتھم العالیہ نے ایک اسلامی تحریک قائم کی گئی ہے جس کا نام تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان ہے۔ جو اسلام کے استحکام کے لئے کام کر رہی ہے۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں جامعہ اسلامیہ رضویہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت اسلامی کا منشور ہے۔ وحدتِ امت خدمتِ امت استحکامِ امت آپ دور حاضر میں اہل سنت کے لیے ایک قابل قدر سرمایہ ہیں۔آپ نےقرآن ، حدیث ، فقہ ، تصوف ، تاریخ ، فتاویٰ نویسی کی خدمات میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے۔اور آپ نے فرمایا کہ اِس اُمت کا مرض شرک نہیں ہے، بلکہ اس امت کا مرض خود غرضی، خود ستائشی، اور ہوش مال و زر ہے۔ آپ نے اس دور کے تقاضوں کے مطابق وحدتِ امت ، خدمتِ امت ، استحکامِ امت کا تین نکاتی منشور پیش کیا ہے۔ آپ نے سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ جن میں سے دو درجن سے زائد کتب زیور طبع سے آراستہ ہو کراہل محبت کے قلوب و اذہان کو جِلا بخش چکی ہیں۔ ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں۔
  1. جنت کا راستہ
  2. علمی محاسبہ
  3. امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
  4.  الجھا ہے پاؤں یار کازلفِ دراز میں
  5. عید میلا د البنی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی شرعی حیثیت
  6. حقیقت میلا د فیو ض و بر کات کی برسات
  7. تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم قرآن کی روشنی میں
  8. ندا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا جواز
  9. غلامی رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اور اُ س کے تقاضے
  10. شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
  11. مولانا محمد بخش مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے سوسال
  12. میاں محمد حیات نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک نظر
  13. اسباب عروج و زوال
  14. پیغام باہو رحمۃ اللہ علیہ
  15. نماز ہے حسن ایمان
  16. ذرا سی بات یا معرکہ حق و باطل
  17. ہماری دعوت فکر
  18. ذرا ایک نظر ادھر بھی
  19. شرح جامع ترمذی شریف زیر طبع
  20. سکو نِ قلب
  21. نوجوانان ملت کے نام کھلا خط
  22. فضائل و مسائل رمضان، اعتکاف، روزہ
  23. فضائل شب برات
  24. ہماری پریشانیوں کا حل
  25. پاکستان کو کیسے بچایا جائے؟
آپ حضرت مولانا الشاہ احمد نورانی صدیقی اور ابو محمد عبدالرشید قادری رضوی کے حقیقی جانشین ہیں۔اورصحیح معنوں میں فکر رضا کے عَلم بردار ہیں۔آپ کی کوئی تقریر یا گفتگو حضرت قائد ملت اسلامیہ مولانا الشاہ احمد نورانی صدیقی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری کے تذکرے سے خالی نہیں ہوتی۔ آپ نے رسم اذاں کو قائم رکھا ہے۔ اللہ کرے اس میں روح بلالی بھی جھلکے۔ حضرت مفتی صاحب نے تیس سال سے زائد عرصہ دین متن کی خدمات میں صرف کر دیا اور امت مسلمہ کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر دین کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی ہے۔ آپ نے اس امت کو جامعہ اسلامیہ رضویہ کا پلیٹ فارم تعلیم و تربیت اسلامی کی تنظیم وحدت امت ، خدمت امت اور استحکام امت کا منشور دیا ہے۔ آپ نےاعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت کے طریقہ تبلیغ کو اپنایا ہے۔ اور ملت اسلامیہ کو وحدت کی طرف لوٹ آنے کا درس دیا ہے۔ دامن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو تھام لینے کی ترغیب دی ہے۔ مفتی محمد ارشد القادری نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی محبت اور غلامی کو امت کا شعار بتایا ہے۔ آپ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی محبت کو وحدت امت کی جان بتایا ہے۔ آپ نے امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے مقدور بھر کوشش کی ہے۔ یہ آپ کا جاگتی آنکھوں کا خواب ہے۔ آپ نے اس کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے میدان عمل میں نکل کر رسم شبیری کو ادا کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ اور اس میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اللہ کرے آپ کی محنتوں سے امت مسلمہ میں احساس زیاں کا ادراک ہو جائے۔ اور وہ اپنے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے چراغ مصطفوی کو شرار بو لہبی سے ستیزہ رکھنے کے لیے سر بکف ہو جائے۔ اور اس کی تعبیر حضرت مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اور اس جہان رنگ و بو میں اسلام کا بول بالا ہو جائے۔ دنیا میں امن قائم ہو جائے۔ اور سسکتی بلکتی انسانیت کو قرار میسر ہو۔ اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ وہ مفتی صاحب کو نافع لمبی عمر عطا فرمائے۔ اور سب کو حق کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین
عبدالرزاق قادری
بشکریہ: افکارِمسلم

No comments:

Post a Comment