سوات کی ملالہ یوسف زئی، پر قاتلانہ حملہ، اسلام کے خلاف ایک بھیانک سازش ہے اور اِس سازش کے بے نقاب ہونے سے طالبان کی نام نہاد شریعت، کا چہرہ ایک بار پھر، اپنے اصل رُوپ میں سامنے آگیا ہے۔ ملالہ، عِلم اور امن کی عِلامت بن گئی ہے اور پوری قوم اِس عِلامت کی حمایت میں متحد ہو گئی ہے۔ دُنیا بھر میں ۔ ملالہ کے خلاف، دہشت گردی پر امن مارچ، دُعائیہ تقاریب، سیمینارز ، جلسے اور جلوسوںکے ذریعے، پاکستان میں ،طالبان کی سرگرمیوں کی پُر زور مذّمت کی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو ہُوا، اور انہوں نے بظاہر ملالہ کی حمایت میں، پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھُل کر اظہار خیال کِیا۔ عُلمائے کرام اور مُفتیانِ عُظّام اور مختلف مسالک کی تنظیموں نے ملالہ پر قاتلانہ حملے کی مذّمت کی اور اُسے خلافِ اسلام قرار دیا، اور اِس کے ساتھ ہی افغانستان اور پاکستان میں امریکی مداخلت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا سوال یہ ہے کہ کیا صِرف اتنا ہی کافی ہے؟پاکستان میں دہشت گردی نے ہماری معاشرت اور معیشت کو ناکارہ کر دِیا ہے۔ ہماری ہر حکومت، قرضوں اور امداد کے لئے، امریکہ کے سامنے گھُٹنے ٹیکنے پر مجبور رہی، لیکن ان قرضوں اور امداد سے عام لوگوں کا بھلا نہیں ہُوا، البتہ بالائی طبقہ ہی انہیں شِیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر تا رہا۔ کسی بھی برسرِ اقتدار گروپ نے، پاکستان کو صحیح معنوں میں نظریاتی ریاست بننے ہی نہیں دِیا۔ پاکستان کو، مثالی ، اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا، قائدِ اعظم ؒ کا خواب اِس لئے شرمندہ ءتعبیر نہ ہو سکا کہ، حکمرانوں کی نِیّت میں فتور تھا۔ ” نظریہ ءپاکستان کیا تھا؟“ اِس کی تفسِیر کی ذمہ داری اُن عُلما ءنے سنبھال رکھی ہے، جِن کے اکابرین نے مصّورِ پاکستان حضرت علّامہ اقبال ؒ اور بانی ءپاکستان کے خلاف کُفر کے فتوے دیئے تھے۔طالبان، دینی مدرسوں کی پیداوار ہیں۔ جمعیت عُلماءاسلام (فضل الرحمن گروپ) اور جمعیت عُلما ءاسلام (سمیع الحق گروپ) کئی بار اِس کا کریڈٹ بھی لے چکی ہیں ۔ ان مدرسوں میں۔ ” مطالعہءپاکستان کا مضمون“۔ نہیں پڑھایا جاتا ۔ ایسی صورت میں دو قومی نظریہ کے علمبرداروں، سر سیّد احمد خان، علّامہ اقبال ؒ اور قائدِ اعظم ؒ کی قومی خدمات کا تذکرہ بھی ضروری ہوتا جو ،اِن دینی مدرسوں کے منتظمین کو پسند نہیںہے۔ چنانچہ اِن مدرسوں کے فارغ اُلتحصیل، دو قومی نظریہ کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور علّامہ اقبال ؒ اور قائدِ اعظم ؒ کے نام حقارت سے لیتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل جمعیت عُلماءاسلام کے دونوں گروپوں کا نام۔ ”جمعیت عُلما ءہند“ تھا، جنہیں کانگریسی مولوی بھی کہا جاتا تھا اور جِن کی ذہنی ساخت و پر داخت داراُلعلوم دیو بند میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان سے قبل مولانا غلام غوث ہزاری کی صدارت میں منعقدہ، لاہور کے جلسے میں ہی، مولانا مظہر علی اظہر نے، جنہیں مولانا ”اِدھر علی اُدھر“ کہا جاتا تھا،قائدِ اعظم ؒ کو۔ ”کافرِ اعظم“ کہا تھا۔مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۔”خدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے“۔ پھر انہی مفتی محمود نے جنوری 1965ءمیں ہونے والے، صدارتی انتخاب میں قائدِ اعظم کی ہمشیرہ ،مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں، فیلڈ مارشل ایوب خان کو سپورٹ کِیا اور اپنے مدرسے کے لئے ،مراعات حاصل کیں۔ 1970 ءکے عام انتخابات کے بعد، قائدِ اعظم ؒ کے پاکستان کے صوبہ سرحد (اب خیبرپی کے) کے وزیرِ اعلیٰ بن کر ”ثواب دارین“ حاصل کِیا۔ 28 اپریل 1997 ءکے قومی اخبارات میں مولانا فضل الرحمن کا ایک بیان شائع ہوا، جِس میں مولانا نے کہا کہ ۔ ” پاکستان ایک خوبصورت نام ہے لیکن طاغُوتی (شیطانی) نام کے باعث مجھے اِس نام سے گھِن آتی ہے“۔ حیرت ہے کہ مولانا فضل الرحمن، ہر دور میں، پاکستان کے طاغونی نام کا حِصّہ بنے اور ہر صاحب اقتدار سے۔ ”حِصّہ بقدر جُثہ بھی وصول کِیا“۔ اس وقت انہیں گھِن کیوں نہیں آتی؟۔27اپریل 1997ءکو ہی، لاہور میں، جمعیت عُلماءاسلام (سمیع الحق گروپ) کے زیرِ اہتمام، شریعت کانفرنس کے حوالے سے، مولوی فیروز خان کا ایک بیان شائع ہوا ، جِس میں اُس نے ہرزہ سرائی کی کہ ۔ ” محمد علی جناح نے دِین کی خاطر ایک ٹکے کا کام نہیں کِیا اور وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی دونوں ہندو بیویوں نے کشمیر کو فروخت کر دیا“۔ میں نے مولوی فیروز دِین کی یاوہ گوئی اور ژاژ خائی کا جواب دِیاتھا، جِس پر مجھے فون پر دھمکیاں بھی ملی تھیں۔ اگست 2005ءمیں بھارت کی معروف درس گاہ دیو بند (جہاں مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق اور اُن کے سنگی ساتھی حاضری دینا اپنا ایمان سمجھتے ہیں) کے منتظم ،مولانا مرغوب اُلحسن کا ایک انٹرویو ممبئی کے ایک اخبار میں شائع ہوا، جِس میں مرغوب اُلحسن نے قائدِاعظم کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”محمد علی جناح، شراب پِیتے تھے اور نماز نہیں پڑھتے تھے۔ میں انہیں مسلمان نہیں سمجھتا“۔ اُس وقت مُلک میں مسلم لیگ ق کی حکومت تھی۔ کسی بھی ق لیگی نے زبان نہیں کھولی۔ البتہ ”نوائے وقت“ اور اِس خاکسار نے مرغوب اُلحسن کی خُوب کھِچائی کی تھی۔حکومت بے نظیر بھٹو کی ہو یا نواز شریف کی، جنرل مشرف کی ہو یا آصف علی زرداری کی، جمعیت عُلما اسلام ، خاص طور پر مولانا فضل الرحمن گروپ ،شریکِ اقتدار رہا اور قائدِ اعظم ؒ کے پاکستان میں ثمراتِ لذائز سے لُطف اندوز ہوتارہا۔ مولانا سمیع الحق کے بارے میں میڈم طاہرہ کا سکینڈل منظرِ عام پر آیا، پھر غائب ہوگیا، لیکن اُن کے دینی مدرسوں میں طالبان کی فصلیں تیار ہو رہی ہیں، جو علّامہ اقبال ؒ اور قائدِ اعظم ؒ کے پاکستان سے نفرت کرتی ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی ۔” اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں۔“ یہ وہی مولانا شیرانی ہیں جِن کے بارے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے 22دسمبر 1997ءکو کہا تھا کہ ۔” اگر بلوچستان کی ساری جماعتیں متحد ہو جائیں تو پیپلز پارٹی صدارتی انتخاب میں جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کے مقابلے میں ،مولانا محمد خان شیرانی کو سپورٹ کرنے کو تیار ہے“۔ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور کرنے کے لئے، اور 11اکتوبر کو ایوانِ صدر میں ، سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس میں، جو کچھ بھی فیصلے ہوئے، اچھے ہی ہوں گے، 3 ماہ قبل امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ کے اپنے نجی دورے کے دوران میرا کئی تقاریب میںسیکولر اور دانشوروں سے ٹاکرا ہوا ، جو یہ پراپیگنڈہ پھیلا رہے ہیں کہ۔ ”محمد علی جناح نے پاکستان بنا کر غلطی کی تھی“ ۔ ایسے لوگوں کا نظریاتی محاذ پر مقابلہ کرنا ہو گا ، لیکن اس سے پہلے ہم سب کو ” اپنی اپنی منجی تھلّے ڈانگ“ بھی پھیرنا ہو گی۔ اگر سب جماعتیں ، ادارے اور قوم ، ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے خلاف واقعی متحد ہے تو کیوں نہ پاکستان کو علّامہ اقبال ؒ اور قائد اعظم ؒ کا پاکستان بنا نے کے لئے عملی طور پر جدوجہد کی جائے؟
بشکریہ: نوائے وقت
No comments:
Post a Comment