Saturday

امام احمد رضا کی عالمی اہمیت...ڈاکٹر محمد ہارون

از: انگریز نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون انگلینڈ
از یاداشت: عبدالرزاق قادری
تقریباً دو سال پہلے (یعنی سن 2011ء میں شاید) میں ایک بار اسلامک سنٹر مسجد ، ایچی سن سوسائٹی لاہور میں سید حسنین شاہ صاحب کے ہاں حاضر تھا۔ مسجد کے باہر پانی کے الیکٹرانک کولر کے اوپر ایک  بارش سے بھیگا ہوا چھوٹا رسالہ پڑا تھا۔ " امام احمد رضا کی عالمی اہمیت از: انگریز نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون انگلینڈ"۔ میں اسے اُٹھا کر گھر لے گیا۔  کئی بار پڑھنا شروع کیا لیکن اس میں سے بھیگنے کی وجہ سے سمیل (smell) آتی تھی۔ چنانچہ فوٹو کاپی کرا کے پڑھا۔ دو ایک اہل علم دوستوں کو یہ کتاب/رسالہ فوٹو کاپی کراکے دیا۔ اس کتاب کو پڑھ کر بہت سے تشنہ سوالات کے جوابات ملے اور مزید تحقیقات کے لیے تجسس پیدا ہوا۔  اُس کاپی کو "رضا اکیڈمی لاہور، کشمیر، یو-کے" نے شائع کیا تھا۔  میں نے داتا دربار مارکیٹ سے اس ادارے کا پتہ کیا وہ مکتبہ لاہور سے اپنا کام بند کر چکا تھا۔  البتہ یو-کے میں موجود ادارے کے فون نمبرز اس کتاب میں درج ہیں۔  میں نے رومن اردو میں انٹرنیٹ پر رضا اکیڈمی کو تلاش کرلیا لیکن زیادہ سرچ نہ کر سکا۔ بعد ازاں مختلف اہل سنت ویب سائٹس پر یہ مقالہ اردو اور انگریزی میں ملا۔ دراصل یہ انگریزی میں لکھا گیا تھا۔ اس کا انگریزی عنوان
"The World Importance of Imam Ahmed Raza Khan Bareilly."
ہے۔ اُس رسالے کا مقدمہ مولانا محمد الیاس کشمیری قادری صاحب کے قلم سے لکھا گیا تھا۔ اور اردو سے انگریزی ترجمہ ڈاکٹر ظفر اقبال نوری صاحب نے کیا ہوا تھا۔ مولانا الیاس صاحب نے  ڈاکٹر محمد ہارون رحمۃ اللہ علیہ کے حالات اور واقعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔ اس کے بعد مجھے انٹرنیٹ پر ایک تحریر  " کیمبرج یونی ورسٹی کے پروفیسر کے قبول اسلام کی سرگزشت از  غلام مصطفی رضوی "  مل گئی۔ وہ بھی شامل کر دی ہے۔ جس سے ڈاکٹر محمد ہارون کے متعلق معلومات میں اضافہ ہو گیا۔ اللہ عزوجل سے دُعا ہے کہ "فکرِ رضا" کا پرچم مزید سربلند ہو اور ڈاکٹر محمد ہارون جیسے عظیم لوگ فکرِ رضا کو دنیا میں عام کرکے اپنی عاقبت سنواریں۔ اللہ تعالیٰ ان پاک طنیت ہستیوں پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اورسب کو ہدایت عطا فرمائے۔
اگست 17، 2013
سنٹرل پلازہ، آفس 9، 5th فلور برکت مارکیٹ لاہور، پاکستان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان ہندوستان کے معروف سنی عالم تھے۔ وہ 1856ء میں پیدا ہوئے۔ اور 1921ء میں انہوں نے وصال فرمایا۔ وہ اپنے دور میں اہلسنت کے امام تھے- اور اس قدر عظیم تھے کہ انہیں اسلامی صدی کے مجدد کے لقب سے پکارا گیا۔ اسلامی صدی کا مجدد وہ ہوتا ہے جو اپنے دور کے تمام لوگوں میں اہم ترین شخصیت ہو۔ پہلی صدیوں کے مجدد دین امام غزالی علیہ الرحمہ کی طرح کے لوگ تھے- جنہوں نے اپنے زمانے میں عظیم ترین اپمیت کے مراتب حاصل کئے مثلاً امام غزالی وہ شخصیت ہیں جن سے پوروپ نے فلسفہ سیکھا ۔ اس مقالے کا مقصد تمام دنیا کے لئے امام احمد رضا بریلوی کی تعلیمات و نظریات کی اہمیت واضح کرنا ہے۔ کوئی بھی شخص دنیا بھر کے لئے اہم ہوتا ہے اگر اس کے یہاں اپنے دور کے اہم ترین مسائل کا حل موجود ہو ۔ کارل مارکس یالینن عالمی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے تھے کیونکہ ان کے انکار و نظریات تمام انسانیت کی رہنمائی کرتے محسوس ہوتے تھے۔ اس مقالے میں ہم ثابت کریں گے کہ امام احمد رضا نے اپنے افکار و تعلیمات سے اس صدی کے اہم ترین مسائل کا حل پیش فرمایا ہے۔ ہماری صدی بھی امام احمد رضا کی صدی ہے۔ اور ہماری دنیا کو بھی اسی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ جس طرح کے امام احمد رضا کے وقت میں تھے۔ اس لئے امام احمد رضا کی اہمیت آج ہمارے لئے بھی اتنی ہی ہے جس قدر 1921ء میں ان کے وصال کے وقت کے لوگوں کے لئے تھی۔ بہتر ہو گا کہ ہم اپنے مقالے کا آغاز عہد جدید کے مزکزی مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش سے کریں۔ یہ جدید دور نئی تہذیب کی کامیابی پھر ناکامی کا دور ہے ۔ سوسال پہلے سائنس پر بہت گہرا اعتقاد تھا اس وقت سے اب تک ہم سائنس کی تنگ دامنی اور بہتر دنیا کی تعمیر میں ناکامی کا مشاہدہ کر چکے ہیں بلکہ سائنس نے اور بھی نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔ جس سے سائنس پر یقین ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس عہد میں سرمایہ داری کا بحران بھی دیکھا ہے اور سرمایہ داری کے مغربی متبادل کی ناکامی بھی۔ کمیونز ناکام ہو گیا ہے۔ سفید نسلی تعصب اپنی تمام تر دپشتوں کے ساتھ نازی ازم میں ملاحظہ کیا جا چکا ہے۔ اور ایک جماعتی اجتماعیت کے نظریے نے بھی تصور سے کہیں بڑھ کر خوف پیدا کیا ہے۔ جدید زمانہ ایسا زمانہ ہے جس میں جدید ثقافت بھی ناکام ہو گئی ہے۔
یہ عہد یوروپ اور بقیہ دنیا دونوں میں جدید ثقافت کی تخریب کا عہد ہے۔ یہ عہد ہر طرف الحاد کے عروج کے ساتھ مذہب کی موت کا عہد ہے۔ بلکہ اس سے بھی اہم۔ دنیا میں موجود مذاہب کے زوال کے سبب مذاہب کے نئے نئے گھٹیا نمونوں کے ظہور کا عہد ہے۔ یہ عہد بھیڑیے کی سی چال کی ذہنیت اجتماعی تحریکوں، فرد کی تذلیل کا عہد ہے۔ جیسے ہم نے پہلے ذکر کیا ایک جماعتی اجتماعیت کے ذریعے انسان کی شرمناک کارستانیوں کا عہد ہے۔ جدید دور نے ان تمام جدتوں سے جن کا ہم نے ذکر کیا مسلم دنیا کو خاص طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ جدید دور اسلام، اہل اسلام اور روح انسانی سب کے لئے گہری تاریک رات ہے۔ یہی وہ دور ہے جس میں مغرب نے روایتی مسلم معاشرہ کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اس کی وجہ مسلم سیاسی قوت کا زوال اور ان مسلمانوں کی روحانی سراندازی ہے۔ جنہوں نے مغرب کو قبول کیا اور اس کی پیروی کی۔ اس کی ستائش کی اور پرستش کی۔ یوں دنیا سے اللہ تعالٰی کو وجود کا تصور معدوم ہو گیا اور متعصب لادینیت اور دہرنیت نے اس کی جگہ لے لی۔ اسی سے وہابیت نے جنم یہاں اسلام دین کی حیثیت سے ختم ہو گیا ۔ اور جدید یدیت کی صورت میں مغرب کی بھونڈی تقلید اور بنیاد پرستی کی صورت میں کمیونزم اور فاشسزم طرز کی سماجی تحریک اس کی متبادل بن گئی۔ روایتی معاشرہ تباہ ہوا اور اس کی جگہ مغرب کا در آمد شدہ نو آبادیاتی نسلیت پرستی اور سرمایہ دارانہ معاشرہ آ گیا۔ اور پھر جب مغرب خود ہی ناکام ہو گیا تو اب ہم ان تمام کھنڈرات کے بیچ کھڑے ہیں۔ جنہیں مغرب نے کمیونزم سے فاشسزم، فاشسزم سے نیشنلزم ، اور نیشنلزم سے کیپٹلزم کی شکل میں تعمیر کرنے کی کوشش کی۔
عالمی حیثیت کی حامل وہی شخصیت ہو سکتی ہے جو دور جدید کی خوفناک شکستوں اور ناکامیوں میں انسانیت کی رہنمائی کی اہلیت رکھتی ہو۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی زندگی کے اصل کام کو اختصار سے بیان کرنا بہت آسان ہے۔ جنہوں نے تمام عمر اہلسنت کے عقائد کے مطابق اسلام اور اسلامی سوسائٹی کا جدید دنیا کے حملوں کے خلاف دفع کیا ۔ خاص طور پر ان اندرونی حملوں کے خلاف جو ان مسلمانوں کی طرف سے تھے۔ جن کا مقصد اہلسنت کے عقائد کے مطابق اسلام سے جان چھڑا کر ایک نئی چیز کو رائج کرنا تھا۔ اہلسنت کے عقائد کے مطابق اسلام اور اسلامی سوسائٹی کے دفع کا کاوشیں ہی امام احمد رضا کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ یہ عالمی اہمیت امام احمد رضا کے عالم دین ہونے اور سنی عالم کی حیثیت سے کام کرنے سے شروع ہوئی۔ انہوں نے زندگی بھر ایک عالم ہی کی حیثیت سے کام کیا۔ انہوں نے ہر اس شخص کے سوالوں کے جواب دیئے جس نے ان سے رابطہ کیا۔ ان کا کردار اسلام کا گہرا علم رکھنے والے ایک دانشوار کا کردار تھا۔ انہوں نے بطور ایک روایتی اسلامی اسکالر تعلیم پائی تھی۔ اور اس میں بھی بے پناہ وسعت تھی۔ وہ مختلف اسلامی اور دوسرے علوم میں ماہر تھے۔ جن میں اسلامی مذہبی علوم و فنون کے علاوہ ریاضی و فلکیات بھی شامل تھے۔ ایک متجر تعلیم یافتہ عالم کی حیثیت سے محض تحقیق طلب سوالوں کے جواب لکھ کر دنیا کو متاثر کرنا شاندار اہمیت رکھتا ہے۔
آج کل اجتماعی تنظیم سازی کا ایسا دور ہے۔ جس میں وسیع دفتری نظام نے فرد کونگل لیا ہے۔ امام احمد رضا نے اس طرز پر کام کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کے دور میں اجتماعی تحریکیں ابھرنا شروع ہو چکی تھیں۔ مگر وہ کسی کے قریب تک نہ گئے۔ انہوں نے کبھی بھی ایک بیوروکریٹ سیاستداں یا منتظم بننے کی خواہش نہ کی۔ اس اجتماعی تنظیم سازی کے تصور کو مودودی کی طرح کے لوگ اسلام میں داخل کرنے کا سبب بنے ۔ امام احمد رضا نے شروع دن ہی سے اس کی مخالفت کی۔ انہوں نے اجتماعی تحریکوں مثلاً تحریک خلافت وغیرہ میں شمولیت سے انکار کیا۔ اور ان تحریکوں کے لئے خود کوئی اجتماعی تحریک ترتیب دینے سے بھی مجتنب رہے۔
آج کے جدید دور کا انسان اندر سے مر چکا ہے۔ کیونکہ آج اچھے فرد کی مانگ نہیں رہی۔ بلکہ محض ایسا فرد درکار ہوتا ہے جو نعرہ لگائے اور جس طرح اسے کہا جائے عمل کرتا رہے۔ امام احمد رضا نے بتایا کہ عصر جدید میں فرد کو یوں مر جانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے عالمانہ رائے دیتے ہوئے بڑی سادگی سے اپنا کام کیا۔ ہٹلر، اسٹالن اور اجتماعی تشہیر کے اس دور میں آج بھی اچھے فرد پر بھروسہ کرنے کی عالمی اہمیت ہے۔ یہ دور حکمت و دانائی کی موت اور شعبہ جاتی تخصص کا دور بھی ہے۔
پہلے زمانے کے مقابلے میں آج ایک طالب علم کم سے کم شئی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانتا ہے۔ یونیورسٹی ایسی جگہ قرار پائی ہے جہاں پروفیسر بھی اپنے چھوٹے سے مخصوص مضمون کے بارے میں کافی علم نہیں رکھتا۔ کمیرج یونیورسٹی میں حکمت و دانش کا کوئی پروفیسر نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمان اپنے ماضی سے کٹ چکے ہیں۔ کسی بھی روایتی تعلیم یا علم کا وجود اب کم ہی نظر آتا ہے۔ اب پڑھا لکھا طبقہ سابقہ ادوار کے روایتی علوم اور حکمت و دانش کو چھوئے بغیر محض اپنے محدودمضامین کا مطالعہ کرتا ہے۔ ایک ماہر فلکیات صرف فلکیات کا علم رکھتا ہے۔ اسے اس حکمت و دانش کی ذرہ بھر خبر نہیں ہوتی جو دوسو سال قبل کے ماہر فلکیات کو حاصل تھی۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا بریلوی اس علمی روایت کے لئے سامنے آئے جو مغرب میں اپنی موت مر چکی تھی ۔ ان کا مقصد علم کی ممکنہ حد تک وسیع کرنا تھا۔ ایسا علم جس کا ایک ہزار سالہ قدیم روایت سے گہرا رابطہ تھا۔ امام احمد رضا اپنی کتابوں میں ایک ہزار سال پہلے تک کے مصنفین کے حوالے دیتے تھے۔ امام احمد رضا بریلوی فلکیات، سیاسیات بلکہ بینک کاری اور کرنسی تک کے سوالوں پر بھی سیر حاصل عالمانہ رائے دیتے تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ روحانی وجدان سے متعلق مشکل ترین سوالات پر بھی تبصرہ و تجزیہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ بلا شبہ امام احمد رضا اپنے اسلامی دور میں صدیوں پرانی ثقافت کا دفع کر رہے تھے۔ آج کی ثقافت تو بالکل بے بنیاد ہو کر رہ گئی ہے۔ ادب اور آرٹ کا ماضی کی روایات سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ آج یوروپی مصوری اور شاعری پچاس سال پہلے کی روایت کی پاسداری نہیں کر رہی جبکہ امام احمد رضا نے قدیم زبانوں تک کی فنی روایت کو نبھایا ہے۔ یہ پوری انسانی تاریخ سے کشید شدہ مکمل ثقافت تھی۔ اسی وجہ سے امام احمد رضا کی عالمی اہمیت ہے۔
امام احمد رضا محدث بریلوی نے طب میں بھی دلچسپی لی۔ طب جدید کا بڑا اصول یہ ہے کہ اس کا طب کی قدیم روایت سے کوئی سابقہ نہیں رہا اور یہ حکم و دانا انسانوں کے بجائے تنگ نظر سائنسدانوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ امام احمد رضا علیہ الرحمہ محض ایک دانا اور ذہین عالم دین، ماہر فنون اور طبیب ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے تمام تر قدیم روایتی حکمت و دانش کو اندرونی و بیرونی حملوں سے بچایا۔ شاید دنیا کے لئے امام احمد رضا کی سب سے زیادہ اہمیت اس بات میں تھی کہ انہوں نے ( مضرت رساں ) سائنس کی مخالفت کی۔ امام احمد رضا کی زندگی کے اکثر دور میں سائنس کی پرستش ہوتی تھی۔ یہ نیوٹن اور ڈارون پر مکمل ایمان کا دور تھا۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا کی زندگی کے آخری ایام کے قریب آئن سٹائن کے انقلاب نے سائنس کی پرستش کے بارے مٰن شکوک و شہبات پیدا کرنے شروع کئے ۔ یہ خاص طور پر مسلم دنیا ہی میں سائنس کی پوجا ہوتی تھی۔ اور سائنس ہی کو مغربی تسلط کی وجہ گردانا جاتا تھا۔ اسی سائنس کی مدد سے سفید فام اقوام نے نو آبادیات کے لوگوں پر قابو پا رکھا تھا۔ سائنس کی پرستش میں بہت سے نام نہاد مسلمان بھی شامل تھے۔ اور مسلمانوں میں سے سر سید احمد خان جیسے لوگوں نے اسلام کو اس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ اسلام سائنس کے بارے میں مغرب کے نظریات کے مطابق ڈھل جائے۔ یہی نہیں بلکہ ان لوگوں نے اس سے بھی زیادہ کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے سائنس ہی کو مسلمان پر استبدار، مسلط ہونے کی وجہ قرار دیا۔ مسلمان سائنس پرست نہیں تھے انہیں سائنس پرست بننے پر مجبور کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے لئے کہیں آزادی نہ ہو اور سائنس کے نام پر مسلمانوں کی مرضی کے بغیر مغربی ماہرین اور جدید مسلم ماہرین ہر جگہ حکومت کریں۔ یقینًا آج ہم جانتے ہیں یہ سائنس زیادہ تر حماقت ہے۔ امام احمد رضا کے وقت میں سائنس سخت نسلیت پرست تھی۔ اور 1921ء میں ان کے وصال کے وقت اس سائنس نے مغرب میں کمیونسٹ اور فاشٹ استبدار کا جواز فراہم کیا تھا۔ سائنس کی پرستش کے تباہ کن منطقی نتائج آج اچھی طرح سمجھے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر مسلم دنیا نے سائنس کے ہاتھوں خوفناک نقصان اٹھائے ہیں۔ ان نقصانات میں سے ایک سائنس کو ہر غلطی سے مبرا سمجھنے والی نوعیت وسطی ایشیاء کی کمیونسٹ رجیم کے ہاتھوں ماحول کی مکمل تباہی کا سانحہ ہے۔ آج ساری دنیا سائنس سے منہ موڑ کر اس روایتی قدیم حکمت و دانش کی حکمرانی سے قبل موجود تھی۔ لیکن امام احمد ر ضا نے آج سے سو سال قبل سائنس کے خلاف جہاد کیا۔ اگر آپ سائنس پر امام احمد رضا کی تصانیف پڑھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ انہوں نے سائنسدانوں کی کس طرح تذلیل کی ہے۔
امام احمد رضا کے نزدیک قرآن اور اسلام ہی میں کامل سچائیاں ہیں۔ اور کسی بھی طرح انکی تردید کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اگر کبھی سائنسدانوں نے ایسا کیا بھی تو امام احمد رضا نے ان کے دلائل کو اسلامی دلائل سے رد کیا اور انکے پرخچے اڑا دیئے۔ اس طرح امام احمد رضا سائنس میں عظیم تھے۔ اگرچہ امام احمد رضا کسی طور پر بھی عالم سائنسداں نہیں تھے مگر وہ ریاضی اور فلکیات اتنی اچھی طرح جانتے تھے کہ رات کو آسمان دیکھ کر گھڑی کا وقت درست کر لیتے تھے۔ وہ مغربی سائنسی نظریات سے بھی آگاہی رکھتے تھے انہوں نے ستاروں کے جھکاؤ کی بنا پر بڑی تباہی کی پیشن گائی کرنے والے ایک مغربی ماہر فلکیات کا جواب لکھا۔ اور اپنے جواب میں انہوں نے مکمل طور پر آسمانوں اور کشش ثقل سے متعلق مغربی نظریات کو بنیاد بنایا۔ اور صحیح طور پر پیشم گوئی فرمائی کہ کوئی تباہی نہیں آئے گی اور ان کی پیشم گائی صحیح ثابت پوئی۔ (1) آپ کانظریہ تھا کہ سائنس کو کسی طرح بھی اسلام سے فائق اور بہتر تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی اسلامی نظریے۔ شریعت کے کسی جزیا اسلامی قانون سے گلو خاصی کے لئے اس کی کوئی دلیل مانی جا سکتی ہے اگرچہ وہ خود سائنس میں خاصی مہارت رکھتے تھے- لیکن اگر کوئی اسلام میں سائنس سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے کوئی تبدیلی لانا چاہتا تو آپ اسے ٹھوس علمی دلائل سے جواب دیتے تھے۔ یہی ان کی عالمی اہمیت کی ایک بڑی دلیل ہے۔
امام احمد رضا کے نزدیک کسی بھی روایتی حکمت اور دانش کو ترک نہیں کیا جانا چاہئے۔ بلکہ سائنس کو چاہئے کہ وہ حکمت و دانش کی رقیب یا متبادل بن کر نہیں بلکہ ہمیشہ اس کا خادم بن کر رہے۔ ایک سو سال بعد اب یہی صورت حال ہے جس کی طرف خود مغرب بھی رجوع کر رہا ہے جیسا کہ سبز سیاست اور سبز تحریک سے ظاہر ہے۔ لیکن دنیا میں اب بھی استبدار کی مدد کرنے والی سائنس کی احمقانہ پرستش جاری ہے۔ مغرب اب جان گیا ہے کہ اسٹالن کے جبر اور ہٹلر کے نسلی تعصب کے پیچھے سائنس کا کیا کردار تھا۔ اسی لئے مغرب نے سائنس کو اس کے اصل مقام پر رکھنا شروع کر دیا ہے۔ امام احمد رضا اس وقت ہی سائنس کو اس کے اصل مقام پر رکھ رہے تھے۔ جب کہ ابھی اس قدر نقصان نہیں ہوا تھا۔ وہ سائنس کو اس مقام پر رکھتے تھے جس کی وہ اہل تھی۔ روایتی حکمت و دانش ابھی زندہ تھی اور وہ خود بھی اس روایتی دانش سے لبریز تھے۔ وہ صحیح تھے اور مغرب غلطی پر تھا۔
ہاں مغرب کے اپنی غلطی کے اعتراف سے سو سال قبل اپنی زندگی میں امام احمد رضا نے سائنسدانوں کی حماقتوں کا جواب دینے کی جدو جہد فرمائی لیکن بلا شبہ احمق یوروپیوں کی پوری دنیا کے مقابل وہ یکہ و تنہا تھے۔ تاہم انہوں نے سائنس کو اس کے اصل مقام پر رکھنے کیلئے مسلمانوں کو ضروری کام پر لگا دیا۔ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ سب سے بڑا چیلنج سائنس کی پرستش اور اس کا وہ طریقہ تھا جس سے وہ اسلامی حکمت و دانش کا دھمکا رہی تھی۔ امام احمد رضا کے زمانے کے مقابلے میں آج ہم سائنس کو چیلنج کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں۔ کیونکہ آج مغرب میں بہت سے لوگ خود ہی سائنس کی محدودیت کو جان گئے ہیں۔ امام احمد رضا سائنس کے مقابل اسلام کا دفع کرنے اور سائنس کی حدیں واضح کرنے کی کاوشوں کی وجہ سے عالمی اہمیت کی حامل شخصیت ہیں۔ صرف امام احمد رضا کے طریق کو اپنا کر ہی مسلم دنیا اپنے تباہ کن ماضی اور حال سے پیچھے چھڑا سکتی ہے۔
اعلٰی حضرت امام احمد رضا بریلوی ایک اور سادہ طریقے سے بھی عالمی اہمیت رکھتے تھے۔ وہ ایک آفاقی تھے۔ جدید دور سخت نیشنلزم اور نسلیت پرستی کا دور ہے۔ لیکن امام احمد رضا چونکہ مسلمان تھے اس لئے کوئی ملک یا براعظم ان کا وطن نہیں تھا۔ پوری اسلامی دنیا انکی مادر وطن تھی۔ ان کی شہرت ساری اسلامی دنیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ خود مکہ معظٌمہ میں ان کو قدر و منزلت کی ناگہ سے دیکھا جاتا تھا۔
(1) انہوں نے اسلام کی بین الاقوامی ثقافت کا تصور دیا۔ وہ تمام لوگوں سے مخاطب ہوئے۔ انہوں نے بہت سی زبانوں میں استفتاء کے جواب لکھے۔ وہ ہمیشہ اس زبان میں جواب دیتے جس زبان میں سوال کیا جاتا تھا۔
(2) آج کے دور میں خواتین و حضرات کتنے ہی زیادہ ہوں جب ایک ہی ملک ایک ہی گروہ یا ایک ہی نسل کی طرف دیکھتے ہیں تو بڑا عجیب لگتا ہے حتٰی کہ ایک عالمی شہرت کا حامل گلوکار بھی آفاقی نہیں ہوتا بلکہ محض امریکی کہلاتا ہے۔ امام احمد رضا ایک آفاقی شخصیت تھے۔ اور یقینًا وہ ایسے ہی تھے کیونکہ وہ ایک سنی مسلمان تھے۔ اور ان کا مقصد اہلسنت کے نظریات و عقائد کے مطابق اسلام کا دفع تھا۔ اہلسنت کے مطابق اسلام ہی تمام مذاہب میں سب سے زیادہ آفاقی ہے۔ عیسائیت کا مرکز اٹلی ہے۔ جبکہ اہلسنت کے مراکز بہت سارے ہیں اپنی تمام تر قدیم روایات کے ساتھ عرب، ترکی، وسط ایشیاء انڈیا مصر، یا اسی طرح کے دیگر ممالک امام احمد رضا کا پیغام آفاقی پیغام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عالمی اسلامی برادری میں شامل ہو جاؤ جو تمام ملکوں ، تمام نسلوں اور تمام قوموں میں موجود ہے۔ کس قدر اہم پیغام ہے یہ دنیا بھر کے لئے۔ آج ہم مرگ مذہب کے دور میں رہ رہے ہیں۔ مذہب کو سائنس کے مطابق اور جدید بنانے کی کاوشوں نے مذہب و روحانیت کو نکال باہر کیا ہے۔ سچی روحانیت تقریبًا ختم ہو گئی ہے اور مذہب محض سیکولر مقاصد کے لئے رہ گیا ہے۔
اسی طرح صیہونیت اور یہودیت ہر طرح سے نازی ازم کی طرح مذہب سے ایک غلبہ پسند نسلیت پرست تحریک میں تبدیل ہو گئی ہے۔ عیسائیت میں مذہب دائیں بازو کی انتہا پسند سیاست کی مدد کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ جیسا کہ سیاسی کیتھولک طریقہ یا جیری فال دیل کی انتہا پسند امریکی پروٹسنٹ بنیاد پرستی ہے۔ سری لنکا میں بدھ مت کے پیروکاروں میں مذہب نے نیشنلزم کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اور مسلم دنیا میں اسلام ایک معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی تحریک میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جیسے مودودی اور خمینی کی سیاست میں اسلام کمیونزم اور فاشسزم کے نمونے پر تعمیر کیا گیا ہے۔
ان تمام صورتوں میں روحانیت غائب ہو جاتی ہے۔ لوگ خدا پر نہیں قوت و طاقت پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔ صیہونیوں کی اصل امید امریکہ اور ایف۔14 پر ہے۔ وہ دعا کی بجائے اجتماعی پروپیگنڈہ اور اجتماعی تنظیم سازی پر یقین رکھتے ہیں۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا کی ساری تگ و تاز اس لئے تھی کہ کسی طرح روحانیت زندہ رہے۔
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں وہ کسی بھی صورت میں اسلام کو سائنس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کو برداشت نہیں کر تے تھے۔ اس سے زیادہ اہم ان کی وہ کاوشیں ہیں جو انہوں نے اہلسنت کے عقائد کے مطابق اسلام کے روحانی اشغال کے دفاع کے لئے جاری رکھیں۔ انہوں نے صوفی ازم یا اسلامی تصوف کے دفاع کیلئے سخت محنت اٹھائی۔ اسلامی روحانیت کی بنیاد وہ مسلم درویش اور اولیائے کرام ہیں جن کا سلسلہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ اقدس سے جا ملتا ہے۔ ان صوفیائے کرام کا ایک دوسرے سے اور ماضی بعید کے صوفی سلاسل سے گہرا ربط ہوتا ہے۔ اور اس طرح ایک نسل سے دوسری نسل تک صوفی ازم کا علم و عمل منتقل کرتے ہوئے وہ ایک زنجیر یا سلسلہ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ امام احمد رضا تمام اہم صوفی سلاسل میں مجاز تھے اور خود بھی ایک بلند پایہ صوفی اور مصلح تھے۔ انہوں نے خود اور ان کے پیروکاروں نے تصوف کی تمام روایات پر عمل کیا۔ امام احمد رضا کی تحریروں میں اسلامی تصوف اور روحانیت کی چودہ سو سالہ روایات ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ مذہب کی تمام علمی دولتیں انہیں کے دم سے ہیں۔ وہ ایک جدید صوفی سے کہیں برتر و بالا ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی مرگ مذہب کی تحریک کے خلاف پوری قوت سے اسلام کا دفاع کیا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے متعصب اور نشہ میں ڈوبے ہوئے سائنسدانوں کے خلاف جہاد کیا اور ہاں ! یہی وجہ تھی کہ انہوں نے وہابیوں کے خلاف جدوجہد کی۔
امام احمد رضا جدید عصر کے تمام حملوں کے خلاف مذہب کے زبردست محافظ تھے۔ انہوں نے ایک بھر پور تحریک کی رہنمائی فرمائی۔ تاکہ اہلسنت کے عقائد کے مطابق اسلام اپنا کام جاری رجھ سکے۔ تنہا یہی کام امام احمد رضا کو عالمی اہمیت کی حامل شخصیت بنا دیتا ہے۔ بہت سی تقاریب اسلام اور اسلامی تصوف میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت عید میلاد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تقریبات، یا بزرگان دین کے مزارات، یا دیگر مقامات پر ان کے عرسوں کی تقاریب وغیرہ، اس سارے تصوف اور مذہب کے ساتھ تمام طرح کی عبادات اور تقریبات کی مضبوط روایت کی بھر پور حفاظت فرمائی۔ انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ عصر جدید کو تصوف اور مذہب کی شاندار علمی روایات پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے۔ مرگ مذہب کے خلاف یہ جدوجہد بجا طور پر عالمی اہمیت کی حامل ہے۔ صیہونیت، عیسائیت اور بدھ مت میں مذہب کی موت کے نتائج ہم ملاحظہ کر چکے ہیں۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ہوشمندی اور عقل و شعور کا ایک ہی راستہ ہے کہ مرتے ہوئے مذہب کو پھر سے زندہ کر دیا جائے۔ انسانیت کے لئے ضروری ہے کہ ایک بار پھر خدا، حیات بعد از موت اور یوم حساب پر یقین کامل پیدا کرے۔ طاقت کی پرستش اور اخلاقی پستی کا جس میں انسانیت گزشتہ صدی سے گر چکی ہے فقط یہی ایک علاج ہے ۔ لیکن صحیح مذہب کو کوئی کہاں تلاش کرے۔ مذہب میں تو تحریفات ہو چکی ہیں۔ Bishop of Durham جیسے لوگوں کو ماننے والی عیسائیت کیسے یاد کرے کہ حقیقی مذہب کیسا تھا۔ لیکن ہمارے پاس امام احمد رضا اور ان کی رہنمائی میں چلنے والی سنی تحریک موجود ہے۔ ہم ان کے پیروکاروں اور ان کی تعلیمات کے ذریعہ جان سکتے ہیں کہ حقیقی مذہبی زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ اور حقیقی روحانیت کیا ہوتی ہے۔ سائنسی قوم پرستی ، نسلیت پرستی اور اجتماعیت کے جدید عہد میں حقیقی مذہب کا دفاع اور حفاظت ہی امام احمد رضا کی عالمی اہمیت ہے۔
امام احمد رضا محدث بریلوی کی اہمیت، دیگر تمام خصوصیات مذہب کی موت کے خلاف ان کی دفاعی جدوجہد ان کی طرف سے سائنس کی مخالفت، ان کی آفاقیت اور روایتی آرٹ کے تحفظ عالمانہ کردار سے نمایاں ہوتی ہے۔ اور ان کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وقت نے انہیں صحیح ثابت کر دیا ہے۔ کیونکہ آج سب نے روایتی مذہب کو ترک کرنے، سائنس کے پیچھے بھاگنے اور سائنس کی ساری تبلیغ کی غلطی کو جان لیا ہے۔ یقینًا امام احمد رضا نے عمومی مذہب کا دفاع نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسلام اور خصوصی طور پر اہلسنت کے عقائد کے مطابق اسلام کا دفاع کیا۔ اور دنیا کے لئے ان کی اہمیت اسی میں تھی کہ انہوں نے اسلام کے دفاع اور حفاظت کے لئے کام کیا۔ امام احمد رضا بریلوی کی عالمی، جدوجہد، ان کی یہی جدوجہد ہے جس کے ذریعے انہوں نے اسلام کا دفاع کیا اور اسے آج کے دور کے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے لئے محفوظ رکھا۔
انیسویں صدی میں زوال اقتدار کی وجہ سے اسلام کی بیرونی حملوں کا خطرہ در پیش تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام کو اندرونی حملوں سے بھی خطرہ تھا۔ مسلمانوں میں اعلٰی معاشرتی مقام کے حامل بہت سے لوگوں نے سوچا کہ اب مسلمانوں کے ساتھ رہنے میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ انہوں نے سوچا کہ وہ مسلم برادری کو چھوڑ کر یورپیوں اور امریکیوں جیسے غیر مسلم معاشرے میں اچھی زندگی گزار سکیں گے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس طرح کرنے کے لئے انہیں اسلام کو مغربی نظریات کے مطابق ڈھالنا پڑے گا۔
روایتی اسلامی طرز زندگی کو چھوڑ کر مغربی طرز کی زندگی کی تقلید کرنا پڑے گی۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ اسلام کو یوں تبدیل کرنے کی ضرورت تھی کہ وہ جدید مغربی سائنس کی پرستش سے مطابقت پیدا کر سکے۔ اسلام میں مذہبیت کم ہو جائے اور وہ جدید مغربی نظریات کے مطابق ڈھل جائے۔ اب یہ سب کچھ کرنے کیلئے ان ( نام نہاد ) مسلمانوں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مرتبے و مقام کو گھٹانے کی ضرورت تھی ان کے معجزات کا انکار درکار تھا۔ انکو کسی خاص روحانی قوت سے محروم ایک عام انسان کی سطح تک گھٹانا مقصود تھا تاکہ مغربی سائنس سے ہم آہنگی ہو سکے۔ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مرتبہ و مقام کم کرنے کی کوشش کی گئی تو ان سائنس پرست مسلمانوں کا درجہ بزعم خویش بلند ہو گیا اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اسلام کو تبدیل کرنے کے استحقاق کا دعوٰی کرنے لگے اب ان تمام ضرورتوں نے ان مسلمانوں کو وہابیت کے راستے پر ڈال دیا۔ وہابیت جسے اٹھارہویں صدی میں ابن عبدالوہاب نے شروع کیا وہ طاقت کے ذریعہ پروان چڑھی۔ وہابیت خالص مذہبیت اور خصوصا روایتی تصوف کو اتار کر دور پھینکنے اور اجتہاد کا دروازہ کھولنے کے کام آسکتی تھی۔ اجتہاد کا مطلب یہ تھا کہ اسلام کو مغربیت میں ڈھالنے کے خواشمند مسلمانوں کی مرضی کے مطابق اسلامی قانون کو دوبارہ لکھا جائے۔ تاکہ وہ غیر مسلم سوسائٹی میں اچھی نوکریاں حاصل کر سکیں اسی طرح امام احمد رضا کے دور میں اسلام کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہو گیا اول اہلسنت کے عقائد کے مطابق روایت اسلامیہ پر حملہ کیا گیا اور اسے کمتر بتایا گیا اور پھر برطانوی حکومت میں مناصب کے خواہاں سر سید احمد خاں جیسے لوگوں نے اسلامی جدیدیت کو رواج دیا۔ اور بعد ازاں مغربی سرمایہ داری کو تقلید محض کرنے والے حکمرانوں کی تمام قوت اپنے ہاتھوں میں رکھ کر مسلم دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام تشکیل دینے والے اسلامی جدت پسندوں نے اس جدیدیت کو مذید پروان چڑھایا اور جب یہ اسلامی جدیدیت ناکام ہو گئی تو پھر کمیونزم فاشسزم کی نقل کی صورت میں وہابیت ابھر آئی۔ فاشسزم اسلامی بنیاد پرستی ہے جو ایران اور دیگر ممالک میں مکمل ناکام اور تباہی پر منتج ہوئی ہے۔ آج ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جس میں مغرب کے بہترین دوست سعودی حکومت کے سانحے، مسلم دنیا میں تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی جدیدیت کی ناکامی کی مصیبت اور آج کے دور میں بنیاد پرستی کی آفت کی صورت میں وہابیت اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے۔ بنیاد پرستی کی آفت شاید ابھی مستقبل میں بھی باقی رہے امام احمد رضا محدث بریلوی نے بہت آغاز ہی میں ان تمام غلط راہوں کی نشاندہی اور بھر پور مخالفت کی تھی وہ مغرب اور سائنس سے کوئی ردرعایت نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے تمام عمر وہابیت کے خلاف جدوجہد میں صرف کی انہوں نے ہر اس شخص کی مخالفت کی جس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مرتبہ اور مقام کو گھٹانے کی کوشش کی- امام احمد رضا نے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر کسی بھی طرح کی تنقید کرنے یا ان کی عظمت و کمال میں کوئی بھی شک پیدا کرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار کیا۔ انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مرتبہ و کمال کو گھٹانے والے وہابی تراجم قرآن کے مقابلے میں اردو زبان میں قرآن حکیم کا بہت ہی خوبصورت ترجمہ پیش کیا۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا نے اسلام کے ان تمام غداروں کی سیاسی اسکیموں کی مخالفت کی جو اسلام کو اپنی قوت بڑھانے کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ان دیوبندیوں اور وہابیوں کو خوب خوب ہدف تنقید بنایا۔ جو سیکولر انڈیا میں ہندؤں کے ساتھ مل کر اعلٰی عہدوں پر پہنچنے کی آس لگائے پیٹھے تھے۔ امام احمد رضا نگاہ بصیرت سے ملاحظہ فرما چکے تھے یہ تمام کوششیں اشتمالیت اور وسیع قتل عام پر منتج ہونگی۔ کیونکہ ہندو کبھی بھی اقتدار میں ان وہابیوں، دیوبندیوں کی شرکت پسند نہیں کریں گے۔ امام احمد رضا نے ان وہابیوں کی عوامی سیاست پر سخت تنقید کی جو اعلٰی مناصب کے حصول کی اسکیموں میں مدد کے لئے مسلمانوں کو محض ووٹروں کے گلے میں بدل دینا چاہتے تھے۔ امام احمد رضا نے باب اجتہاد کھولنے کی کسی بھی کوشش کی بھر پور مخالفت کی۔ وہ کسی کو بھی اپنی ذاتی قوت کے حصول کے لئے اسلام کے ناکام استعمال یا اسلام کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر امام احمد رضا نے حقیقی اسلامی برادری کے تحفظ کی کوشش فرمائی۔ روایتی اسلامی سوسائٹی اگرچہ پیچیدہ تھی مگر اس کی بنیاد ناقابل تبدیل شریعت کے محافظ اور مسلمانوں کے راہبر علمائے کرام کے نظام مزارات، خانقاہوں اور مشائخ کرام کے ساتھ صوفی سلسلے کے مکمل وجود اور میلاد کی طرح کی تقریبات پر تھی۔ یہی سوسائٹی دنیا میں اللہ تعالٰی کی رضا اور پسند کے مطابق ڈھلی ہوئی سوسائٹی ہے۔ اور امام احمد رضا نے اسی کے دفاع کی کوششیں فرمائیں۔
انہوں نے بلاشبہ وہابیوں سے اس اسلامی سوسائٹی کو بچایا۔ اور بہت سے ایسے دوسرے لوگوں سے بھی جو علماء سے جان چھڑا کر مودودی کی طرح کے صحافی اور سیاست دانوں کو نگراں بنانا چاہتے تھے۔ تاکہ تصوف کے سلاسل کو مکمل طور پر تباہ کیا جا سکے۔ اپنی جگہ امام احمد رضا کے وقت ہی سے ان لوگوں نے سرمایہ داری یا اشتراکیت کے نمونے پر ایک خوفناک سوسائٹی تشکیل دے لی تھی۔ جس پر انہیں کی حکومت تھی۔ جس کا انہیں کو انکے خاندان کو اور ان کے دوستوں کو فائدہ تھا۔ اور اسی سائنس پرست سوسائٹی سے چھٹکارے کی کسی بھی کاوش کو دبانے کے لئے انہیں ہر جگہ خفیہ پولیس کی ضرورت تھی۔
اعلٰی حضرت امام احمد رضا نے یہ بھی رہنمائی فرمائی کہ مسلم کمیونٹی آج کی دنیا میں کس طرح صحیح معنی میں محفوظ رک سکتی ہے۔ 1912ء میں چار نکاتی پروگرام کے تحت یہ نظریہ پیش فرمایا کہ مسلمانوں کو آپس کے تنازعات باہم حل کرنا چاہئے۔ انہوں نے آپس میں خرید و فروخت کی طرف متوجہ ہونے کی رہنمائی فرما کر ان کے اتحاد، معاشی استحکام اور صحیح اسلامی معاشرے کی تشکیل کا راستہ بھی بتا دیا۔ یہی راستہ تھا جس پر چل کر مسلمان غیر مسلم سوسائٹی میں ڈھلے بغیر اپنی تمام روایات سمیت اپنی سوسائٹی کو محفوظ رکھ سکتے تھے۔ بدترین نسل پرستی، تعصب اور اشتمالیت سے اور شریعت و طریقت کو پروان چڑھا کر اپنی اسلامی جنت میں برقرار رہتے ہوئے جدید دنیا کو جہنم میں اترتے دیکھ سکتے تھے۔ اور مغربیت اور سائنس کی بیجا لادنیت سے بھی محفوظ رہتے اور وہابیت کی لعنتوں سے بھی محفوظ رہتے۔ کسی طرح کا سیاسی دام ان کو اپنی گرفت میں نہ لے پاتا۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا اور دیگر لوگوں نے اس منصوبہ بندی پر عمل کیا جس سے اسلام اور اہلسنت کی روایتی سوسائٹی بیسویں صدی کے تمام تر مضرات کے باوجود ندہ و سلامت رہی۔ آج تمام جدت پسندوں اور بنیاد پرستوں کی ناکامی کے بعد منصوبہ رضا کی عظمت کھل کر سامنے آرہی ہے۔ ان جدت پسندوں او بنیاد پرستوں نے مسلم دنیا میں کوئی پائیدار تعمیر نہیں کی۔ غیر مسلم بھی ایک اچھی سوسائٹی تشکیل دینے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ کمیونزم اور فاشسزم دونوں ناکام ہو رہے ہیں۔ حتٰی کہ اعتدال پسند سوشلزم کے فوائد بھی معدوم ہو رہے ہیں۔ کیونکہ مغرب اب دوبارہ سرمایہ دارانہ نظام کی خالص اور بے رحم تعبیر کی طرف لوٹ رہا ہے اور دنیا دائنسی منصوبوب کی ناکامی محسوس کر رہی ہے۔ دریں حالات امام احمد رضا کی عالمی اہمیت اور بھی نمایاں ہو رہی ہے۔ انہوں نے جدید منصوبوں پر اس وقت تنقید کی جب وہ ابتدائی منزل طے کر رہے تھے۔ آج امام احمد رضا محدث بریلوی ہی کے نظریات سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ ہہ ایک مرد مومن کی فراست اور اس کی بصیرت تھی۔ سب کچھ صدقہ تھا عشق رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا کا دور اب شروع ہوا ہے۔ ہم اسلام دشمن اور غیر اسلامی حکومتوں اور معاشروں کی دنیا میں رہ رہے ہیں جس کا مذہب سے رابطہ کٹ چکا ہے۔ ہمیں امام نے سکھایا ہے کہ ہم اس دنیا میں کس طرح ہر باطل کا مقابلہ کرتے ہوئے وقار کے ساتھ زندہ رہیں اب تک ہم وہ تمام پہلو ملاحظہ کر چکے ہیں جن کی وجہ سے امام احمد رضا اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے جدید دنیا کے حملوں کے خلاف عقائد اہلسنت کے مطابق اسلام کا دفاع کیا۔ امام احمد رضا عالمی اہمیت کے حامل ہیں۔ کیونکہ اہلسنت کے عقائد اور اسلام عالمی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اور عقائد اہلسنت اور انکے نظریات ہی دنیا کے مسائل کا جواب رکھتے ہیں۔ انہی عقائد و نظریات کا نام اسلام ہے۔ اور یہی سچا مذہب ہے۔
اعلٰی حضرت امام احمد رضا پوری دنیا کے لئے تمام انسانیت کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک اللہ اور اسکے سچے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور دین حق کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتے ہیں۔ امام احمد رضا نے رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی کامل و اکمل محبت اور عزت کو اسلام کا مرکز اپنی زندگی کا مرکز اور اپنی تمام علمی کاوشوں کا مرکز بنائے رکھا۔ اور یہی ان کی عالمی اہمیت کا سبب ہے

بشکریہ : http://www.nooremadinah.net









کیمبرج یونی ورسٹی کے پروفیسر (انگریز نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون)کے قبول اسلام کی سرگزشت

کیمبرج یونی ورسٹی کے پروفیسر کے قبول اسلام کی سرگزشت
غلام مصطفی رضوی
نوری مشن مالیگاوٴں
اسلام مکمل نظام حیات ہے۔ یہ فطری تقاضوں کا پورا کرتا ہے۔ اس لیے ہر صحیح الذہن آدمی کے لیے اسلام ہی منزل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جستجو اور تلاش کا سفر طے کرنے والے دامن اسلام میں پناہ لیتے ہیں۔ ۱۷/ویں صدی کے صنعتی انقلاب اور دور جدید کے تکنیکی انقلاب نے قبول حق کے لیے ذہنوں کو مزید ہم وار کیا۔ عقل و خرد سے سوچنے والا اسلام کی سچائی بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔ حالاں کہ ویسٹرن کلچرنے ایجادات کے دوش پر یہ واہمہ قائم کیا تھا کہ مغربی ایجادات کے بطن سے اسلام کے خلاف نئی صبح طلوع ہوگی۔ عقلی ایجادات کے مقابل اسلام کا نظام روحانیت ٹک نہ سکے گا!! اسلام کی تعلیمات ایسی جامع ہیں کہ عقلی مطالعہ اس کے حسن حقیقی کو مزید بے نقاب کرنے کا باعث بنتا ہے۔

اشاعت اسلام کے تسلسل کو دیکھا جائے تو اس ضمن میں اسلامی اخلاق و تعلیمات کا عمل دخل ہے جس کی عملی تصویر صوفیا و اولیا نے پیش کی۔ اس کے نظائر کئی براعظموں میں اسلام کے اشاعتی و تبلیغی تسلسل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسلام کے دعوتی نظام میں واقعی بات تو یہ ہے کہ اس گروہ کا معمولی حصہ بھی نہیں جو صرف مسلمانوں کو کلمے کی دعوت دیتا ہے۔ پورا براعظم افریقا، امریکہ اور حتیٰ کہ ہندوستان، چین و روس میں بھی اسلام کی دعوت صوفیا کے توسط سے پہنچی۔ برطانوی انگریز نو مسلم کیمبرج یونی ورسٹی انگلینڈ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون نے صوفیا کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ انھوں نے اپنے قبول اسلام کے اسباب پر ایک کتاب Why I Accepted Islam? لکھی۔ انھیں کے الفاظ میں قبول حق کی سرگزشت سنیں:

میں نے ۲۰/جون ۱۹۸۸ء کو اسلام قبول کیا۔ اس وقت میری عمر ۴۴/سال تھی۔ میں لیورپول میں ۱۹۴۴ء میں پیدا ہوا۔ ۱۹۸۸ء میں مَیں نے ایک مسلم صوفی گروپ سے رابطہ قائم کیا اور در حقیقت انھوں نے ہی مجھے فیصلہ کن مرحلہ طے کرنے میں مدد دی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں کیتھولک ازم سے دل چسپی رکھتا تھا، لیکن میں نے اسے اس لیے مسترد کر دیا کہ وہ غریبوں کی مدد اور دنیا کو ایک بہتر مقام میں بدلنے کے حوالے سے غیر متوازن رویہ رکھتا تھا، تب میں اشتراکیت اور لیبر پارٹی سے وابستہ ہوا۔ یہاں تک کہ مجھے احساس ہو گیا کہ ان کے پاس بھی غریبوں کی مدد اور دنیا کو ایک بہتر مقام میں بدلنے کے لیے کوئی چیز نہیں۔ اب میں مارکسیت میں دل چسپی لینے لگا لیکن اسے بھی مسائل کے حل سے عاری پایا۔

میں ۱۹۶۳ء میں تاریخ کا مطالعہ کرنے کیمبرج یونی ورسٹی گیا۔ میں یورپ وسطیٰ کے نصاب تاریخ کے حوالے سے تقریباً ایک ہفتہ اسلام کے (سیاسی) عہد عروج کا مطالعہ کیا اور اس میں جو چیز میں نہ بھول پایا وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غریبوں کے ساتھ وابستگی ہے۔ ۱۹۷۰ء میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں تھوڑا سا پڑھا۔ میں نے مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ کیا۔ میں نے (ترک وطن کرنے والے مسلمان) گروہوں سے رابطہ کیا۔ مجھے مسلمانوں کی کچھ خاص تقاریب میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ایک علم دوست ہونے کے ناطے مجھے لیکچر دینے کے لیے بھی کہا گیا۔ لہٰذا میں نے ڈاکٹر اقبال# وغیرہ پہ گفتگو کی(واضح رہے کہ اقبال# کی شخصیت سے موصوف کے متاثر ہونے کا سبب ان کی ذات رسول کریم سے والہانہ وابستگی اور محبت ہے، اقبال# سچے عاشق رسول تھے، اور اسی میں امت مسلمہ کی کامیابی تصور کرتے تھے،)

۱۹۸۰ء میں مَیں نے یونی ورسٹی میں مسلم دنیا پر لیکچر دینے شروع کیے، مسلمانوں کی ان تقاریب میں مَیں نے تلاوت قرآن سنی، چند کتابچے خریدے، اور بہت سارے لوگوں سے تبادلہٴ خیال کیا، یہ اسلام کے اٹھاوٴ(یہاں مراد مادیت کے زوال اور اسلامی روحانیت سے مغرب کا متاثر ہونا ہے)کا زمانہ تھا، ۱۹۸۰ء سے میں اسلام میں سنجیدگی سے دل چسپی لے رہا تھا تب ۱۹۸۸ء میں میری ملاقات (مرکز تصوف)دارالاحسان والوں سے ہوئی اور میں نے فیصلہ کن قدم اٹھایا، بلا شبہہ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں کہ میں اس راستے سے ہوتا ہوا اسلام تک کیوں پہنچا؟

ڈاکٹر محمد ہارون کا وصال۱۹۹۸ء میں یوکے میں ہوا۔ دس سالہ عرصے میں انھوں نے دسیوں کتابیں لکھیں، اور ہر ایک میں استدلال کا رنگ غالب ہے۔ انھوں نے ہندوستان پر فرنگی عہد کی اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا۔ اس دور کے مذہبی و سماجی مصلحین کے افکار کا جائزہ لیا۔ اسلامی اقدار کی حفاظت کے سلسلے میں شاہ احمد رضاخاں محدث بریلوی کی خدمات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے شاید اس کا سبب عشق رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں وارفتگی ہو، اس لیے بھی کہ گزری دو صدیوں میں اسلام کے خلاف جتنی بھی نظریاتی تحریکیں داخلی و خارجی سطح پر ابھریں ان کا حملہ عظمت و عصمت نبوی علیہ الصلاة والسلام پر ہی رہا۔

ڈاکٹر محمد ہارون نے اپنے قبول اسلام کے اسباب میں اسلام کے سیاسی، سماجی، اخلاقی وجوہات کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے، انھوں نے قرآن مقدس کی تفسیر بھی انگریزی میں لکھنی شروع کی جو ابتدائی مرحلے میں تھی کہ ان کا وصال ہوگیا۔ دنیا کے مسائل کے انبار میں ان کے واقعی حل کے لیے صرف اسلام کو مدار نجات قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں: ”مسلمانوں کو قدیم اسلام کی طرف دعوت دینا ایسا کام ہے جو آج کے مسلمانوں پر واجب ہے۔ اس کام کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بھر پور محبت اور تعظیم ہے۔“(Islamic Concept of State,p100) علاوہ ازیں وہ اپنے پیغام میں سیرت نبوی سے درس و سبق کے ساتھ اسلامی اخلاق کی طرف ذوق بھی دلاتے ہیں جس کی موجودہ انحطاط پذیر دور میں زیادہ ضرورت ہے۔
امام احمد رضا کی عالمی اہمیت از: انگریز نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون انگلینڈ
بشکریہ
http://www.khwajaekramonline.com/articles/?p=2633


جمع و ترتیب :عبدالرزاق قادری

Friday

اقبال ؒ اور قائدِ اعظم ؒ کا، پاکستان بنائیں!کالم نگار | اثر چوہان13 اکتوبر 2012

سوات کی ملالہ یوسف زئی، پر قاتلانہ حملہ، اسلام کے خلاف ایک بھیانک سازش ہے اور اِس سازش کے بے نقاب ہونے سے طالبان کی نام نہاد شریعت، کا چہرہ ایک بار پھر، اپنے اصل رُوپ میں سامنے آگیا ہے۔ ملالہ، عِلم اور امن کی عِلامت بن گئی ہے اور پوری قوم اِس عِلامت کی حمایت میں متحد ہو گئی ہے۔ دُنیا بھر میں ۔ ملالہ کے خلاف، دہشت گردی پر امن مارچ، دُعائیہ تقاریب، سیمینارز ، جلسے اور جلوسوںکے ذریعے، پاکستان میں ،طالبان کی سرگرمیوں کی پُر زور مذّمت کی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو ہُوا، اور انہوں نے بظاہر ملالہ کی حمایت میں، پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھُل کر اظہار خیال کِیا۔ عُلمائے کرام اور مُفتیانِ عُظّام اور مختلف مسالک کی تنظیموں نے ملالہ پر قاتلانہ حملے کی مذّمت کی اور اُسے خلافِ اسلام قرار دیا، اور اِس کے ساتھ ہی افغانستان اور پاکستان میں امریکی مداخلت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا سوال یہ ہے کہ کیا صِرف اتنا ہی کافی ہے؟پاکستان میں دہشت گردی نے ہماری معاشرت اور معیشت کو ناکارہ کر دِیا ہے۔ ہماری ہر حکومت، قرضوں اور امداد کے لئے، امریکہ کے سامنے گھُٹنے ٹیکنے پر مجبور رہی، لیکن ان قرضوں اور امداد سے عام لوگوں کا بھلا نہیں ہُوا، البتہ بالائی طبقہ ہی انہیں شِیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر تا رہا۔ کسی بھی برسرِ اقتدار گروپ نے، پاکستان کو صحیح معنوں میں نظریاتی ریاست بننے ہی نہیں دِیا۔ پاکستان کو، مثالی ، اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا، قائدِ اعظم ؒ کا خواب اِس لئے شرمندہ ءتعبیر نہ ہو سکا کہ، حکمرانوں کی نِیّت میں فتور تھا۔ ” نظریہ ءپاکستان کیا تھا؟“ اِس کی تفسِیر کی ذمہ داری اُن عُلما ءنے سنبھال رکھی ہے، جِن کے اکابرین نے مصّورِ پاکستان حضرت علّامہ اقبال ؒ اور بانی ءپاکستان کے خلاف کُفر کے فتوے دیئے تھے۔طالبان، دینی مدرسوں کی پیداوار ہیں۔ جمعیت عُلماءاسلام (فضل الرحمن گروپ) اور جمعیت عُلما ءاسلام (سمیع الحق گروپ) کئی بار اِس کا کریڈٹ بھی لے چکی ہیں ۔ ان مدرسوں میں۔ ” مطالعہءپاکستان کا مضمون“۔ نہیں پڑھایا جاتا ۔ ایسی صورت میں دو قومی نظریہ کے علمبرداروں، سر سیّد احمد خان، علّامہ اقبال ؒ اور قائدِ اعظم ؒ کی قومی خدمات کا تذکرہ بھی ضروری ہوتا جو ،اِن دینی مدرسوں کے منتظمین کو پسند نہیںہے۔ چنانچہ اِن مدرسوں کے فارغ اُلتحصیل، دو قومی نظریہ کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور علّامہ اقبال ؒ اور قائدِ اعظم ؒ کے نام حقارت سے لیتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل جمعیت عُلماءاسلام کے دونوں گروپوں کا نام۔ ”جمعیت عُلما ءہند“ تھا، جنہیں کانگریسی مولوی بھی کہا جاتا تھا اور جِن کی ذہنی ساخت و پر داخت داراُلعلوم دیو بند میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان سے قبل مولانا غلام غوث ہزاری کی صدارت میں منعقدہ، لاہور کے جلسے میں ہی، مولانا مظہر علی اظہر نے، جنہیں مولانا ”اِدھر علی اُدھر“ کہا جاتا تھا،قائدِ اعظم ؒ کو۔ ”کافرِ اعظم“ کہا تھا۔مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۔”خدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے“۔ پھر انہی مفتی محمود نے جنوری 1965ءمیں ہونے والے، صدارتی انتخاب میں قائدِ اعظم کی ہمشیرہ ،مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں، فیلڈ مارشل ایوب خان کو سپورٹ کِیا اور اپنے مدرسے کے لئے ،مراعات حاصل کیں۔ 1970 ءکے عام انتخابات کے بعد، قائدِ اعظم ؒ کے پاکستان کے صوبہ سرحد (اب خیبرپی کے) کے وزیرِ اعلیٰ بن کر ”ثواب دارین“ حاصل کِیا۔ 28 اپریل 1997 ءکے قومی اخبارات میں مولانا فضل الرحمن کا ایک بیان شائع ہوا، جِس میں مولانا نے کہا کہ ۔ ” پاکستان ایک خوبصورت نام ہے لیکن طاغُوتی (شیطانی) نام کے باعث مجھے اِس نام سے گھِن آتی ہے“۔ حیرت ہے کہ مولانا فضل الرحمن، ہر دور میں، پاکستان کے طاغونی نام کا حِصّہ بنے اور ہر صاحب اقتدار سے۔ ”حِصّہ بقدر جُثہ بھی وصول کِیا“۔ اس وقت انہیں گھِن کیوں نہیں آتی؟۔27اپریل 1997ءکو ہی، لاہور میں، جمعیت عُلماءاسلام (سمیع الحق گروپ) کے زیرِ اہتمام، شریعت کانفرنس کے حوالے سے، مولوی فیروز خان کا ایک بیان شائع ہوا ، جِس میں اُس نے ہرزہ سرائی کی کہ ۔ ” محمد علی جناح نے دِین کی خاطر ایک ٹکے کا کام نہیں کِیا اور وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی دونوں ہندو بیویوں نے کشمیر کو فروخت کر دیا“۔ میں نے مولوی فیروز دِین کی یاوہ گوئی اور ژاژ خائی کا جواب دِیاتھا، جِس پر مجھے فون پر دھمکیاں بھی ملی تھیں۔ اگست 2005ءمیں بھارت کی معروف درس گاہ دیو بند (جہاں مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق اور اُن کے سنگی ساتھی حاضری دینا اپنا ایمان سمجھتے ہیں) کے منتظم ،مولانا مرغوب اُلحسن کا ایک انٹرویو ممبئی کے ایک اخبار میں شائع ہوا، جِس میں مرغوب اُلحسن نے قائدِاعظم کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”محمد علی جناح، شراب پِیتے تھے اور نماز نہیں پڑھتے تھے۔ میں انہیں مسلمان نہیں سمجھتا“۔ اُس وقت مُلک میں مسلم لیگ ق کی حکومت تھی۔ کسی بھی ق لیگی نے زبان نہیں کھولی۔ البتہ ”نوائے وقت“ اور اِس خاکسار نے مرغوب اُلحسن کی خُوب کھِچائی کی تھی۔حکومت بے نظیر بھٹو کی ہو یا نواز شریف کی، جنرل مشرف کی ہو یا آصف علی زرداری کی، جمعیت عُلما اسلام ، خاص طور پر مولانا فضل الرحمن گروپ ،شریکِ اقتدار رہا اور قائدِ اعظم ؒ کے پاکستان میں ثمراتِ لذائز سے لُطف اندوز ہوتارہا۔ مولانا سمیع الحق کے بارے میں میڈم طاہرہ کا سکینڈل منظرِ عام پر آیا، پھر غائب ہوگیا، لیکن اُن کے دینی مدرسوں میں طالبان کی فصلیں تیار ہو رہی ہیں، جو علّامہ اقبال ؒ اور قائدِ اعظم ؒ کے پاکستان سے نفرت کرتی ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی ۔” اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں۔“ یہ وہی مولانا شیرانی ہیں جِن کے بارے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے 22دسمبر 1997ءکو کہا تھا کہ ۔” اگر بلوچستان کی ساری جماعتیں متحد ہو جائیں تو پیپلز پارٹی صدارتی انتخاب میں جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کے مقابلے میں ،مولانا محمد خان شیرانی کو سپورٹ کرنے کو تیار ہے“۔ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور کرنے کے لئے، اور 11اکتوبر کو ایوانِ صدر میں ، سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس میں، جو کچھ بھی فیصلے ہوئے، اچھے ہی ہوں گے، 3 ماہ قبل امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ کے اپنے نجی دورے کے دوران میرا کئی تقاریب میںسیکولر اور دانشوروں سے ٹاکرا ہوا ، جو یہ پراپیگنڈہ پھیلا رہے ہیں کہ۔ ”محمد علی جناح نے پاکستان بنا کر غلطی کی تھی“ ۔ ایسے لوگوں کا نظریاتی محاذ پر مقابلہ کرنا ہو گا ، لیکن اس سے پہلے ہم سب کو ” اپنی اپنی منجی تھلّے ڈانگ“ بھی پھیرنا ہو گی۔ اگر سب جماعتیں ، ادارے اور قوم ، ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے خلاف واقعی متحد ہے تو کیوں نہ پاکستان کو علّامہ اقبال ؒ اور قائد اعظم ؒ کا پاکستان بنا نے کے لئے عملی طور پر جدوجہد کی جائے؟
بشکریہ: نوائے وقت

Thursday

آزادی اظہار رائے پہ لعنت.... عبدالرزاق قادری

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئرکے دوسرے دورِ حکومت میں مَیں نے اخبارات میں پڑھا تھا کسی اخبار نے امریکہ کی اُس دَور کی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کا ایک کارٹون بنایا تھا اور اس کارٹون میں اُس کے پیٹ سے ایک نیا مشرق وسطیٰ جنم لیتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ تب مغرب اس اقدام کے خلاف چیخا۔ امریکہ دھاڑا ۔ اور آزادی اظہار رائے کی شِق کو بھول گیا۔ حالانکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ لیکن خاتون وزیر خارجہ کی بے عزتی برداشت نہ کی۔ دوسری جنگ عظیم اور دیگر جنگوں میں ان امریکی اور اتحادی فوجیوں اور افسروں نے جاپان، کوریا میں ہزاروں اور دیگر ممالک کے اعداد و شمار ملا کر لاکھوں برہنہ عورتوں کو چند پونڈ اور ڈالرز کے عوض بیچا۔ اور ان نشے سے دُھت فوجیوں نے عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا۔
مسلمانوں میں خواندہ اور ان پڑھ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔ چودہ صدیاں گزر گئیں۔ لیکن آج تک کسی مسلمان نے کسی مقدس کتاب کی بے حرمتی نہیں کی۔ کبھی کسی جاہل نادان نے بھی کسی نبی یا رسول کی گستاخی کا اقدام نہیں کیا۔ اُن پر بہت سے سخت اوقات بھی آئے اور گزر گئے۔ لیکن ان کے ایمان نے ایسی کوئی ہرزہ رسائی گوارا نہ کی۔ کیونکہ اُنہیں مدنی تاج دار ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ تربیت ملی کہ کسی بھی نبی کی شان مت گھٹاؤ۔ بلکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیا کرام علیہم السلام معصوم ہیں ، گناہوں سے پاک ہیں۔اور ان کو اللہ عز وجل نے بے شمار معجزات سے نوازا۔ ان کے معجزات کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ مسجدوں میں سینکڑوں خطبے دوسرے نبیوں کی شان بیان کرنے پر ہوتے ہیں۔مسلمان بچے بچپن سے حضرت مریم علیہ السلام کی پاکیزگی کی شان کو مسجدوں میں سنتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن پاک کی انیسویں سورۃ کا نام مریم ہے۔ اس سورۃ میں جس طرح حضرت مریم کی پاکیزگی بیان کی گئی۔ تورات اور انجیل میں بھی اتنے زور سے حضرت مریم کا دفاع موجود نہیں۔ بلکہ اُن کی اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کی وجہ سے دوسرے نبیوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں لکھی ہوئی ہیں کہ اہل سلام کے نزدیک وہ بھی گستاخی ہے۔ جبکہ ہم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے ساتھ دیگر تما م الہامی مذہبوں کو اپنے ایمان کا حصہ جانتے ہیں۔ اور ہم اپنے نبی کی تعریف بھی خوب بیان کرتے ہیں۔اور یوں مسلمانوں کے ایمان کو مزید مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ وہ کبھی گستاخی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اُن کے ہاں ایسی سوچ کا خواب میں آ جانا بھی محال ہے۔ انسانی تاریخ مسلمانوں کے ہاتھوں ایسی کوئی گستاخی ثابت نہیں کرسکتی۔ ان کی گواہی ہے کہ اگر دنیا کے کسی بھی شخص نے ایسی بد معاشانہ حرکت کی تو پھر وہ زمین کے اوپر نظر نہ آیا۔بلکہ زمین کے نیچے۔
اس سے پہلے چاہے اس کا کوئی بھی مذہب یا عقیدہ تھا۔ گستاخانہ حرکت کے بعد گستاخ قرار پایا اور اپنے انجام کو پہنچا۔
اب یہ کیسے ممکن ہے مسلمانوں کی ایمان کی جان نبی آخرالزمان کی ذات پر کوئی شقی القلب حرف اُٹھائے اور ان کی غیرتِ ایمانی کو جوش نہ آئے۔ دراصل تمام مسلمان ایک قوم ہیں۔ امتِ واحدہ ہیں۔ فکری طور پر ایک اُمت ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا کے ہوں ، مشرقِ وسطیٰ، وسطِ ایشیائی ریاستوں کے ہوں، جنوب مشرق اور مشرقِ بعید کے یا چین و روس کے، آسٹریلیا و انٹارکٹیکا کے، یا پھر ساحلِ نیل کی پٹی کے، افریقہ کے ہوں یا یورپ کے، امریکہ کے ہوں یا کینیڈا کے وہ آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں۔ ان کے ایمان کی روح رحمۃ اللعٰلمین کا عشق ہے۔
ان کے دل مکے اور مدینے کے نام سے دھڑکتے ہیں۔ ان میں کوئی معمولی فسق و فجور ہو تو ہو لیکن مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کمی نہیں ۔ وہ سراپا محبت قوم ہیں۔ ان کا دین امن کا سب سے بڑا عَلَم بردار بھی ہے۔ اور اس کا عملی نمونہ بھی صرف مسلمان قوم نے دکھایا۔ آؤ کبھی دیکھو ! اُس عظیم فاتح مکہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فاتحانہ انداز یعنی وہ شفقت سے فرما دینا
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ
اپنی زندگی کے بدترین دشمنوں کو عام معافی کا اعلان !
اور اس پر عمل بھی !
اپنی بیٹی کے قاتل کوبھی معافی!
اے دنیا میں امن کے جھنڈے اٹھانے والو !
لے کر آؤ اپنی تاریخوں سے ایسی کوئی مثال !
کھلا چیلنج ہے۔
تم تو بدکرداری پر اُتر آئے۔ انسانیت کے سب سے بڑے قاتل تم ہو۔
تم ہٹلر ہو۔
تم فرڈی نینڈ ہو۔
تم ناگاساکی اور ہیروشیما کے لیے قیامت کا اعلان ہو۔
تم نے وطن کی محبت کے نعرے میں فاشزم کا سہارا لے کر، اپنی قوت کی برتری جتانے کے لیے انسانیت کا بے دریغ خون بہایا۔
تم نے مفتوح علاقوں میں عزتیں تار تار کیں۔ تم نے انسانوں کی تذلیل کی۔اللہ ظالموں کو ذلیل کر کے مارے گا۔ 
ان شاء اللہ
امریکہ میں چند شر پسند شیطان صفت درندوں نے آخری نبی حضرت محمد کے کردار کے حوالے سے معاذاللہ گستاخانہ فلم بنا کر نشر کی۔ پہلے مصر سے احتجاج شروع ہوا۔ پھر لیبیا میں ان کا ا یک سفارت کارمرگیا۔ اس کا ایک دو ساتھی بھی۔ ان کو کسی نے قتل نہیں کیا۔ بلکہ وہ احتجاج دیکھ کر خوف ہی سے مر گئے یا دُھویں کی وجہ سے دم گھٹنے کا شکار ہوئے۔جب کہ اس دوران میں ایک درجن سے زیادہ لیبیا کے لوگ اور پولیس آپس میں لڑ جھگڑ کر جاں بحق ہوگئے۔چونکہ پولیس کے محافظوں کا کام سفارت خانے کی حفاظت کرنا تھا۔ اور دین کے محافظوں کا کام جانِ ایمان کی شان کی حفاظت کرنا تھا۔ اس واقعہ کے بعد نمرودِ وقت نے اپنے ایک بندے کی زندگی کو دو ارب کے قریب مسلمانوں کے ایمان کی زینت آقا کریم کی شان سے قیمتی سمجھتے ہوئے اُس مرنے والے کے حق میں آواز اُٹھائی۔ اور اُس کا بدلہ لینے کی باتیں کیں۔ اور لیبیا کی کرنل معمر قذافی سے آزادی والی تحریک کی اپنی سرپرستی کو بھی جتلایا۔ ڈیڑھ ارب ارب سے زائد مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ اور ان میں سے اکثر سڑکوں پر آ گئے۔ ان کے جذبہء ایمانی کو ٹھیس پہنچی اور فرعونِ وقت غُرا رہے ہیں کہ فلاں سے دشمنی لیں گے اور فلاں کی امداد بند کر دیں گے۔ ہم لعنت بھیجتے ہیں انسانی حقوق کی ان نام نہاد عالمی تنظیموں ، جمہوریت اور آزادیء اظہار رائے پر۔ جن کا معیار دوہرا ہے۔کوئی ان کی وزیر خارجہ کا کارٹون بنائے تو آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔ اور تمام جہانوں کے لیے رحمت والے نبی کی شان میں گستاخی پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ پھر ان کو اپنی اموات یاد آ جاتی ہیں۔ اور مسلمان کے معاملے میں آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں۔ اللہ کرے وہ حقیقی طور پر سارے اندھے ہی ہو جائیں۔ اور جہنم
میں اوندھے مُنہ گرائے جائیں۔لیکن وہ آکھیں کھول کر پڑھ لیں اور کان کھول کر سُن لیں کہ اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں آیا۔ یہ عروج کا حق دار ہے۔ اور انشاء اللہ عروجِ بام پر پہنچ کر بر سرِ عروج ہی رہے گا۔ پھر بھی اِسلام کے بارے میں صفحاتِ کتب تواریخ گواہ ہیں کہ اس کے ماننے والے فاتح بن کر ظالم نہ بنے۔ اور قوت میں آ کر اُس کے طاقت نشے میں چُور نہ ہوئے۔
ہاں یاد رکھو ! فتح مکہ کے دن اُس رحمۃ اللعٰلمین نے اپنی جان کے دشمنوں کو بخش دیا تھا۔ اپنی بیٹی کے قاتل کو بھی معاف کر دیا۔ لیکن بد زبانی کر کے گستاخی کرنے والے کو خانہ کعبہ سے پکڑ کر موت کے گھاٹ اُتروا یا۔ اگر تمہارا سب کچھ تمہارا وطن اور قومیت ہے تومسلمانوں کے لیے ایمان کی جان محمد مصطفیٰ کی ذات ہے۔ تم تو نائن الیون 
کے جھوٹے منصوبے بنا کر اور اسلام کے لبادے میں باطل جنگجو فسادی تنظیمیں بنا کر نہتے مسلمانوں پر ظلم کرتے اور کرواتے ہو۔تو وہ برداشت کر جاتے ہیں۔ یہ ظلم تو ان کی جان کا معاملہ ہے۔ لیکن نبی کی شان ان کے ایمان کا معاملہ ہے۔ اگر تمہارے برطانوی کو ہسپانوی یا فرانسیسی کو آئرش کَہ کر پکارا جائے تو وہ قیامت برپا کرنے پر تُل جاتا ہے۔ وہ تو قومیت کا ادنیٰ درجے کا معاملہ ہے۔ لیکن یہاں تمام جہانوں کے خالق و مالک کے محبوبِ حقیقی کی شان کا معاملہ ہے۔ یہ بھول جاؤ کہ اب بھی وقت تمہاری دسترس میں رہے گا، اب ان شاء اللہ نبی کی شان کے محافظ اپنی جانوں کے نذرانے دے کر اس کی پاسبانی کریں گے۔ اور اپنے اعلیٰ ترین اور غیرت مند قوم ہونے کا ثبوت دیں گے۔
بشکریہ: افکارِ مُسلم

مفتی اعظم پاکستان

حضرت مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری لاہور میں رہتے ہیں۔ حضرت صاحب 16 فروری 1958 عیسوی کو کوٹ نیناں (تحصیل شکرگڑھ کا ایک گاؤں)میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم جامعہ رسولیہ شیرازیہ بلال گنج لاہور سے علامہ حضرت محمد علی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے اور قریبی سکول سے حاصل کی۔ اور اعلیٰ تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے جبکہ جامعہ پنجاب لاہورسے تاریخ ، اسلامیات اور عربی میں ایم۔اے کی اسناد حاصل کیں۔ آپ اولڈ راوین بھی رہ چکے ہیں اور گولڈ میڈلسٹ بھی ہیں۔ آپ نے تنظیم المدارس کے امتحانات میں بھی ریکارڈ قائم کیے۔ فکری تربیت میں آپ جن مبارک ہستیوں سے بلا واسطہ فیض یاب ہوئے۔ ان میں پیر طریقت حضرت علامہ مولانا ابو محمد عبدالرشید قادری رضوی ، علامہ مولانا مفتی عبدالقیوم ہزاروی ، علامہ مولانا مفتی عبدالحکیم شرف قادری(آپ فرماتے ہیں کہ مجھے قلم چلانا علامہ مفتی عبدالحکیم شرف قادری نے سکھایا)، مفسر قرآن علامہ مولانا فیض احمد اویسی ، علامہ مولانا الشاہ احمد نورانی رحمھم اللہ علیھم اجمعین قابل ذکر ہیں۔ آپ نے اپنی ایک کتاب جنت کا راستہ کا انتساب حضرت علامہ مولانا الٰہی بخش ضیائی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے نام کیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ میں نے احقاق حق اور ابطال باطل کرنا اُن سے سیکھا۔ بالواسطہ طور امامِ اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری ، علامہ ڈاکٹر محمداقبال رحمھم اللہ علیھم اجمعین کی فکر سے متاثر ہیں۔ انہوں نے 19 جولائی 1990 بروز جمعرات داتا دربار کی جامع مسجد سے دینی سوال و جواب کی نشستوں کا آغاز کیا۔ جو کہ فتویٰ کی ایک صورت ہے۔ مسجد میں عوام الناس لکھ کر اور کھڑے ہو کر بول کر سوال و جواب کرتے ہیں۔ لیکن جواب صرف بیانیہ ہوتا ہے۔ درج شدہ نہیں ہوتا۔ 1990 سے سن 2010 تک جو سوالات لکھ کر پوچھے گئے ان کی تعداد چھیانوے ہزار تھی۔ جو کہ اب 2012 تک ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ نیز زبانی طور پر پوچھے جانے والے سوالات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اور ان کا ریکارڈ محفوظ نہیں۔ لیکن آڈیو اور کبھی کبھی ویڈیو کی صورت میں تقریبا بے شمار مواد محفوظ ہے۔ جو کہ ان شاءاللہ آنے والی مسلم امت کے کام آئے گا۔ اسی خدمت کی بناء پر آپ مفتی اعظم پاکستان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے اس ذمہ داری کو عرصہ بائیس سال سے اپنا وظیفہ سمجھ کر سر انجام دیا ہے۔ آپ کی نشستوں کے اوقات یہ ہیں۔ جمعرات ، اتوار: بعد از نماز ظہر جمعرات ، ہفتہ: بعد از نماز مغرب یہ ہفتہ وار چار نشستیں باقاعدگی سے جاری ہیں۔ سوائے تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کے ماہانہ اجتماع کے دن جو کہ ہر شمسی مہینے کی دوسری اتوار کو لاہور میں جامعہ اسلامیہ رضویہ میں منعقد ہوتا ہے۔ یا کبھی اُس دن جب آپ لاہور سے کہیں باہر ہوں۔ ورنہ نشست میں حاضر ہوتے ہیں۔ علامہ محمد ارشد القادری دامت برکاتھم العالیہ نے ایک اسلامی تحریک قائم کی گئی ہے جس کا نام تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان ہے۔ جو اسلام کے استحکام کے لئے کام کر رہی ہے۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں جامعہ اسلامیہ رضویہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت اسلامی کا منشور ہے۔ وحدتِ امت خدمتِ امت استحکامِ امت آپ دور حاضر میں اہل سنت کے لیے ایک قابل قدر سرمایہ ہیں۔آپ نےقرآن ، حدیث ، فقہ ، تصوف ، تاریخ ، فتاویٰ نویسی کی خدمات میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے۔اور آپ نے فرمایا کہ اِس اُمت کا مرض شرک نہیں ہے، بلکہ اس امت کا مرض خود غرضی، خود ستائشی، اور ہوش مال و زر ہے۔ آپ نے اس دور کے تقاضوں کے مطابق وحدتِ امت ، خدمتِ امت ، استحکامِ امت کا تین نکاتی منشور پیش کیا ہے۔ آپ نے سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ جن میں سے دو درجن سے زائد کتب زیور طبع سے آراستہ ہو کراہل محبت کے قلوب و اذہان کو جِلا بخش چکی ہیں۔ ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں۔
  1. جنت کا راستہ
  2. علمی محاسبہ
  3. امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
  4.  الجھا ہے پاؤں یار کازلفِ دراز میں
  5. عید میلا د البنی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی شرعی حیثیت
  6. حقیقت میلا د فیو ض و بر کات کی برسات
  7. تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم قرآن کی روشنی میں
  8. ندا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا جواز
  9. غلامی رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اور اُ س کے تقاضے
  10. شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
  11. مولانا محمد بخش مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے سوسال
  12. میاں محمد حیات نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک نظر
  13. اسباب عروج و زوال
  14. پیغام باہو رحمۃ اللہ علیہ
  15. نماز ہے حسن ایمان
  16. ذرا سی بات یا معرکہ حق و باطل
  17. ہماری دعوت فکر
  18. ذرا ایک نظر ادھر بھی
  19. شرح جامع ترمذی شریف زیر طبع
  20. سکو نِ قلب
  21. نوجوانان ملت کے نام کھلا خط
  22. فضائل و مسائل رمضان، اعتکاف، روزہ
  23. فضائل شب برات
  24. ہماری پریشانیوں کا حل
  25. پاکستان کو کیسے بچایا جائے؟
آپ حضرت مولانا الشاہ احمد نورانی صدیقی اور ابو محمد عبدالرشید قادری رضوی کے حقیقی جانشین ہیں۔اورصحیح معنوں میں فکر رضا کے عَلم بردار ہیں۔آپ کی کوئی تقریر یا گفتگو حضرت قائد ملت اسلامیہ مولانا الشاہ احمد نورانی صدیقی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری کے تذکرے سے خالی نہیں ہوتی۔ آپ نے رسم اذاں کو قائم رکھا ہے۔ اللہ کرے اس میں روح بلالی بھی جھلکے۔ حضرت مفتی صاحب نے تیس سال سے زائد عرصہ دین متن کی خدمات میں صرف کر دیا اور امت مسلمہ کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر دین کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی ہے۔ آپ نے اس امت کو جامعہ اسلامیہ رضویہ کا پلیٹ فارم تعلیم و تربیت اسلامی کی تنظیم وحدت امت ، خدمت امت اور استحکام امت کا منشور دیا ہے۔ آپ نےاعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت کے طریقہ تبلیغ کو اپنایا ہے۔ اور ملت اسلامیہ کو وحدت کی طرف لوٹ آنے کا درس دیا ہے۔ دامن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو تھام لینے کی ترغیب دی ہے۔ مفتی محمد ارشد القادری نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی محبت اور غلامی کو امت کا شعار بتایا ہے۔ آپ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی محبت کو وحدت امت کی جان بتایا ہے۔ آپ نے امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے مقدور بھر کوشش کی ہے۔ یہ آپ کا جاگتی آنکھوں کا خواب ہے۔ آپ نے اس کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے میدان عمل میں نکل کر رسم شبیری کو ادا کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ اور اس میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اللہ کرے آپ کی محنتوں سے امت مسلمہ میں احساس زیاں کا ادراک ہو جائے۔ اور وہ اپنے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے چراغ مصطفوی کو شرار بو لہبی سے ستیزہ رکھنے کے لیے سر بکف ہو جائے۔ اور اس کی تعبیر حضرت مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اور اس جہان رنگ و بو میں اسلام کا بول بالا ہو جائے۔ دنیا میں امن قائم ہو جائے۔ اور سسکتی بلکتی انسانیت کو قرار میسر ہو۔ اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ وہ مفتی صاحب کو نافع لمبی عمر عطا فرمائے۔ اور سب کو حق کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین
عبدالرزاق قادری
بشکریہ: افکارِمسلم

معاشرے میں خواص و عوام کا کردار... عبدالرزاق قادری

اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں کروڑ پتی کالم نویس حضرات اپنے ادبی فن کی بنا پر مفلس و نادار لو گوں کے درد کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ یوم مئی کو لا کھ پتی حضرات مزدور انجمنوں کی صورت میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹی وی چلا کر دیکھ لیں۔ ایک فلم کے لیے کروڑوں کا معاوضہ لینے والا غریب کا نمائندہ ہے اور فلم میں اُس اداکار کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ اُس کو قتل کر دیا جاتا ہے حالانکہ وہ اپنے مرنے کے بعد ہاتھی کی طرح سوا لاکھ سے بھی زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔ ٹاک شو میں اینکر پرسن بولتا ہے جس کی تنخواہ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی کے سنیئر ترین افسران سے زیادہ ہوتی ہے ۔وہ بھی ایک عام آدمی کی نمائندگی کرتا ہے اور پیاز کی قیمت بیس روپے زیادہ ہو جانے پر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ تمام پارٹیوں کے تمام سیاست دان لاکھوں روپے کا لباس اور جوتے پہن کر کر وڑوں کی گاڑی میں تشریف لاتے ہیں اور عوامی جلسہ میں انہوں نے ایسے ایسے پر فیوم لگا رکھے ہوتے ہیں کہ ان کو پسینے کی تکلیف نہ سہنا پڑے۔ یا ان کے ڈائس کے سامنے خفیہ اے۔ سی لگا ہو تا ہے اور وہ بھی بلند و بانگ دعوؤں سے غریب غرباء کو ان کا حق دلانے کے لیے پُر سوز تقریرکر تا ہے۔ جوکہ کسی لاکھ پتی بیور و کر یٹ نے لکھی ہوتی ہے اور شاعروں کا کلا م پڑھتا ہے جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ بندہ غریبوں کا سچا غم گسار ہے اور خیر خواہ بھی۔ غریبوں کی اعانت کے جتنے اشتہارات ہم اخبارات اور ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ ان کا دسواں حصہ بھی عملی نمونے کی صورت میں نظر نہیں آتا۔ اگر کوئی منصوبہ سامنے آجاتا ہے تو اس میں اتنے زیادہ فنی عیب ہوتے ہیں کہ وہ بہت جلد ناکام ہو جاتا ہے۔ یاپھر بد نیتی کی بناء پر اتنے نااہل اور کرپٹ لو گ بھرتی کیے جاتے ہیں جو معاشر ے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں اور حقیقتا تو ناسور کا علاج اُسے کاٹ پھینکنا ہی ہے ورنہ اقبال فرشتوں کے لیے اپنے کلا م میں یوں نہ فرماتے۔
؂ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خو شۂ گند م کو جلا دو
الغر ض ہمارے ہاں سونے کو تولنے کے لیے پیتل کے تکڑی بٹے استعمال کیے جاتے ہیں اور مو م کی سیڑھی لگا کر سورج کو چھونے کی کو شش کی جاتی ہے اور اس کے سد باب کے لیے ابھی گہری خا موشی ہے۔ ابھی نہر سوئی ہوئی ہے اُس میں پتھر گرا کر دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ابھی شور دریا کو چیلنج کر نے والا کوئی سکوت سمندر سامنے نہیں آیا۔ ابھی قوم مایوس ہے۔ ابھی اس کو کسی مسیحا کا انتظار ہے۔ پچھلی چھ دہائیوں میں ابھی تک پاکستان میں کوئی مسیحا بھی ان کے ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھال پایا۔ شاید عوام میں شعور کی کمی ہے یقیناًعوام میں شعور ہی کی کمی ہے کیونکہ ان کی فکری تربیت درست انداز میں کرنے والا کوئی محرک ابھی تک ان کے حواس پر نہیں چھایا۔ ان پر کفار کا میڈیا اثر انداز ہو رہا ہے ان پر مغربی تہذیب کا رنگ غالب ہے۔ فریبِ نظری دل کش روپ میں انہیں برباد کر رہی ہے۔ پھولوں کی رکھوالی مالی کی بجائے چور اور ڈاکو کر رہے ہیں۔ انقلا ب اور تبدیلی کے الفاظ اتنی بار استعمال ہو چکے ہیں کہ اب ان کی کوئی و قعت نہیں رہی۔ ہر گلی سے ایک انقلا ب آور شخصیت کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ داغ دار دامن کے ساتھ کوئی کیسے دوسروں کی داد رسی کرے گا۔ بُرے کر دار کے حامل ماضی والے افراد قرآن و حدیث کے حوالے دے کر کس طرح لوگوں کی تقدیر یں بدلیں گے۔ اپنی ذات کو تبدیل کرلینے سے قاصر لو گ کر وڑوں لو گو ں کے قائد ہونے کے کیونکر رواہیں؟ پرآسائش زندگی گزارنے والے کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ عام شہری کے تجربے سے گزرے اور اس کے معاملات کو ذاتی طور پر سمجھ سکے۔ جن کے بچے نالا ئق بھی ہوں تو اعلیٰ ترین اور مہنگے ترین اداروں میں باآسانی پڑھیں ان کو ٹا ٹ سکو ل کی تعریف کس منطق کے تحت سمجھ میں آئے اور وہ بچے بھی جو ان ہو کر کیا عوامی خدمات بجالانے کے قابل ہوں؟؟؟؟؟
اور چند ، سکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ دینے والے دانش ور ، صحافی اور اینکر پرسن کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ کلمہ حق کہے۔ خدا گواہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک بھی ایسا نکل آئے جو حق پر ہو اور اگر حق کی خاطر جان سے بھی گزرنا پڑجائے تو گریز نہ کرے تو کروڑوں عوام اُسے بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح سر آنکھوں پر بٹھا لیں۔ یوں لگتا ہے کہ مذکورہ بالا تما م شعبہ ہائے زندگی کے لو گوں نے کفار کے سامنے حلف اٹھا رکھا ہے کہ وہ نہ تو سچ بات کہیں گے اور نہ ہی اس پر عمل کریں گے۔ ان لو گوں کو عیش و عشرت نے کفر اور گمراہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور غریب مفلس عوام کو مفلسی نے۔ میرے منہ میں خاک۔ ہم سب مل کر ایسا کردار کیوں اپنائے ہوئے ہیں کچھ تو مال و دولت کے بل بوتے پر خد ا بن بیٹھنے کو تیار ہیں اور دوسرے ناداری کی بنا پر ان نمرود صفت لو گوں کو پوجنے کو تیار ہیں ۔کیا ہمیں ابھی تک بنیادی غلطی کی سمجھ نہیں آئی کیا ہم نے اسلامی افکار پر مبنی تعلیمات کی تربیت حاصل کیااور اس کا عملی مظاہرہ اپنے بچوں کے سامنے کیا؟ کیا ہم نے بچوں کے سامنے حقیقی مسلمان کا کردار ادا کیا؟ کیا ہم نے کبھی اسلامی تعلیم و تربیت کے اداروں کا رُخ کیا؟ کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سنت پر عمل کیا تاکہ ہمارے بچے بھی دیکھ کر اس کو سیکھ سکیں اور ان کی تعلیم و تربیت اسلامی ہو جائے اور سنت پر عمل کرنے والے بچے جو ان ہو کر معاشرے کی اصلا ح میں اپنا کر دار ادا کریں۔ کیا ہم نے اپنے دکا ن دار بیٹے کو سمجھایا کہ وہ پچاس روپے کلو والی چینی ستر روپے میں نہ بیچے اور پانچ سو والا آٹے کا تھیلا سات سو میں فروخت نہ کرے۔ کیا ہم نے اپنے کنڈکٹر بھائی کو گھر سے سکھا کر بھیجا کہ وہ بیس کی جگہ چالیس روپے کرایہ نہ لے گا۔ اور طالب علموں سے صرف رعایتی کر ایہ لے گا۔ او رکیا اپنے طالب علم بچوں کو سمجھا کر کالج بھیجا کہ وہ بس میں رعایتی کرایہ ضرور دے گا اور کنڈکٹر بھائی سے بدتمیزی نہیں کرے گا۔ ہم سب صر ف اپنی اپنی ہی اصلا ح کیوں نہیں کر لیتے؟ کیونکہ جب ہر ایک شخص خو د کو خو د ٹھیک کر لے گا تو پھر سب اچھے ہو جائیں گے بلکہ ہم نے بجائے اس سب کے اُلٹ ہی عمل کیا۔ گھر میں کیبل اور انٹر نیٹ لگو ا کر بچوں کو مکمل آزادی اور خو د مختاری دے دی ان کو کبھی مسجد نہ بھیجا۔ انہیں محلے میں تمیز سے رہنے کی تلقین نہ کی۔ انہیں اساتذہ کرام کا ادب نہ سکھایا انہیں محنت کا عادی نہ بنایا انہیں دوسروں کا حق چھیننے سے باز رہنے کا درس نہ دیا۔ راہ چلتے سلام کرنے کی عادت نہ ڈالی۔ حرام کھانے سے نہ روکا۔ بلکہ قانون توڑنے کو دلیری بتایا۔ ان میں برداشت کا مادہ پیدا نہ کیا۔ انہیں تشدد کرنے کا عادی بنایا۔ بھائی چارے کا درس نہ دیا۔ اچھے اور بُرے کی تمیز نہ سکھائی۔ سچ بولنا نہ سکھایا۔ خو د جھوٹ بول کر ان کی غلط تربیت کی اور جھوٹ کو ایک بہت بڑا فن بتایا اپنی ہی اولاد کو ملا وٹ کرنے سے نہ روکا۔اقبال تڑپ اٹھا
زہراب ہے اُس قوم کے حق میں مئے افرنگ
جس قوم کے بچے نہیں خو د دار و ہنر مند
اور مزید فرمایا۔
اُس قوم میں ہے شوخیِ اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکرِ خدا داد سے روشن ہے زمانہ
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
ہم نے جس طرح کے افراد تیار کیے بالکل اسی طرح کا معاشرہ ہمارا مقدر بنا۔ ہمارے حکمران بھی اسی کی تعبیر ہیں۔ اور ہمارے دانش ور بھی اسی تربیت کی تفسیر ہیں۔ اور ہمارے نظام میں طاری جمود خود غرضی کا آئینہ دار ہے۔ ہماری خود ستائشی ناقص کر دار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور ہماری مال و زر کی حرص ہی ہمارے سروں پر جوتے بر سا رہی ہے۔ غریب گھروں کے بچے بڑے بڑے اداروں میں اول پوزیشن لے کر ثابت کر رہے ہیں کہ تعلیم و تربیت ، محنت ، خو د داری اور ہنر مندی بہت قیمتی سرمایہ ہیں۔ آج لو گ ٹی ۔ وی پر ، اخبارات پر اور انٹر نیٹ پر ان بچوں کی زیارت کرکے اپنے سینے میں ٹھنڈ پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ
سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
او
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
آخر ہمارے غریب کس دن امیر کا منہ تکنا بند کریں گے۔ اور ہمارے غریب کس دن دوسرے غریب کا استحصال کرنے سے باز آجائیں گے۔ کیا ہم ابدی چین حاصل کرنے کے لیے تھوڑی سی تکلیف برداشت کرلینا گوارا نہ کریں گے۔ کیا ہم معاشرے میں محبت کو عام کرنے کے لیے اپنی زبان میں مٹھا س نہ بھر لیں گے۔ کیا ہم لاکھوں لو گوں کی خو شیوں کی خاطر اپنی تھوڑی سی خواہشات کو قربان نہ کر سکیں گے۔ کیا ہم نہ بدلیں گے اور ہماری تقدیر نہ بدلے گی۔
بشکریہ: افکارِ مسلم

قائداعظم اور قوم عبدالرزاق قادری

 یوں تو روزانہ سینکڑوں لو گ پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسے افراد جو قوموں کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ہر روز پیدا نہیں ہوتے ۔ زمانے میں فکر ی کام کرنے والے لو گ کم ہی ہوتے ہیں لیکن ایک فکر انگیز شخصیت اُن لاکھوں لو گوں پر سبقت رکھتی ہے جو صرف ہتھیار چلانا جانتے ہیں۔ کام کا مَر د اگر ایک ہی پیدا ہو جائے تو وہ قوموں کی تقدیروں کے رُخ بدل دیتا ہے ایک لمبے عرصے تک لو گ کسی قائد کے پیدا ہو جانے کا انتظار کرتے ہیں ۔ رہنما کے بغیر کئی دہائیوں کی محنت وہ رنگ نہیں لاتی جو رہنما کی سر کر دگی میں چند برسوں میں لے آتی ہے ۔ اس کی بہت سی وجو ہات ہوتی ہیں ۔ مثلا ایک خاص وجہ تو یہ ہے کہ رہنما اور قائد لو گ صرف اپنی ذات تک ہی نہیں سو چتے ۔ قائد کو صرف اپنے گھر کی ہی فکر نہیں ہوتی ۔ اُسے پوری قوم کی اجتماعی فکر ہوتی ہے ۔ وہ لو گوں کو متحد ہو کر اپنی قوم کی حفاظت کرنے کی سو چ دیتا ہے جبکہ عوام کے ذہنوں میں یہ خیال موجود ہو تا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے لیے کیوں کام کریں ۔ عوام یہ سو چتے ہیں کہ بس جی اپنا رزق کماؤ اپنے بال بچوں کو اچھا کھانا کھلاؤ یہی اچھی زندگی ہے ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر اپنی قوم کے لیے اجتماعی کام اور اجتماعی حفاظت کو چھوڑ دیا جائے تو پھر تو جب یہ قوم ہی باقی نہ رہے گی پھر ہمارے بچوں کی حفاظت کیسے ممکن ہو گی رزق تو ان کے بچے بھی کھاتے ہیں جو سخت گرمیوں کی دو پہروں میں اور سر دیوں کی برفانی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں جاگ کر قوم کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں عوام کے لیے پہر ہ دیتے ہیں ۔ قائد اپنے عوام کو یہ حقیقتیں بتاتا ہے کہ وہ بھی اجتماعی طور پر قوم کے لیے کام کریں ۔ اپنی کمائی میں سے قوم و ملک کے لیے سرمایہ فراہم کریں تاکہ اُسی سرمایے میں سے اُن نو جوانوں کی تنخواہوں کا بند و بست ہو سکے جو راتوں کو جاگ کر پہر ہ دیتے ہیں اور عوام بڑے مزے کے ساتھ اپنے آرام دہ کمروں میں آرام فرماتے ہیں اور نیند کے مزے لو ٹتے ہیں ۔ قائد اگر حقیقی مخلص اور درست سمت میں رہنمائی کرنے والا ہو تو وہ قوم کو بتاتا ہے کہ اپنے ارد گرد نظر رکھیں اور معاشرے کا غور سے مطالعہ کرتے رہیں ۔ کہ کس کس انداز سے قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے لو گ تحریکیں بنا کر اور انفرادی طورپر کام کر رہے ہیں ۔ اُن عناصر پر نظر رکھیں جو اشیاء ضروریات کو مہنگے داموں فروخت کرکے قوم کا سرمایہ غرق کر رہے ہیں اور لو گوں کی سوچ کو صرف مہنگائی کی زد میں لا کر محدود کرتے جا رہے ہیں ۔ قائد ہی بتا تا ہے کہ دیکھو مختلف سیاسی تحریکیں عوام کو تقسیم کرنے کے لیے اور آپس میں نفرتیں پھیلا نے کے لیے کہیں علاقائی علیحدگی کے لیے کام کر رہی ہیں اور کہیں کسی خاص زبان کو بولنے والے لو گوں کو مشتعل کر کے انتشار پھیلا نے کا کام کیا جارہا ہے تو کہیں نئے صوبے بنانے کے نام پر منا فقت جنم لے رہی ہے ۔ عوام کو ایک امت ، ایک ملت ، ایک قوم ہونے کا جو احساس اسلامی تعلیمات سے ملتا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے گھناؤ نے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم کسی کو اپنا قائد تسلیم کرنے پر رضا مند اور متحد نظر نہیں آرہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس قوم کو متعد د بار استعمال کیا گیا ۔ کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی جمہوریت کے نام پر بنی سیاسی پارٹیوں نے روٹی ، کپڑا اور مکان یا دیگر منشور بنا کر قوم کو ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جن سے ان کا اپنا پیٹ بھرنے کی راہ ہموار ہوتی ہو اورجن سے امریکہ و دیگر کافر ممالک کی حکومتوں والے آقا خوش ہوتے ہوں ۔ اور یہ پارٹیاں اور جماعتیں بڑے منظم انداز سے کام کرتی نظر آئیں ۔ کیونکہ بُرے لو گ ہمیشہ منظم ہوتے ہیں ۔ آج بھی کچھ تنظیمیں کفار کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اس وطنِ پاک کے خلاف طرح طرح کے حربے استعمال کر رہی ہیں اور عوام کو اپنے ہی ملک کے خلاف کام کرنے کی سوچ فراہم کر رہی ہیں ۔اور عوام کو چونکہ کسی ایک قائد کی رہنمائی میں متحد ہو جانے کا شعور نہیں اس لیے وہ کسی نہ کسی تنظیم کو منتخب کر لیتے ہیں اور اسلام کے نام پر کام کرنے کے دھو کے میں وہ اپنے ہی وطن کو غیر محفوظ بنانے مین مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ اپنی ہی اجتماعی طاقت کو ختم کر رہے ہیں اور اپنے دین اسلام ہی کے مخالف کفار کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ جب آپ اپنے وطن کے خلاف کر یں گے تو ملک ٹوٹ جائے گا ( خدا نخو استہ ) اور جب ملک ہی نہ رہے گا تو پھر کیسی حفاظت اور کیسا اسلام کا قلعہ ؟ تب یہ تنظیمیں اس خام خیالی میں ہوں گی کہ ہم نے اپنے کافر آقاؤں کے لیے کام کیا تھا ان کے لیے راہ ہموار کی تھی اب وہ ہمیں تو بڑی بڑی مراعات دیں گے اور ہماری بڑی عزت افزائی ہوگی ۔ تو تب یہ تنظیموں والے دیکھیں گے کہ کفار پہلے ان کار گڑا نکالیں گے کیونکہ کفار کا موقف ہو گا کہ تم تو اپنے ہم مذہبوں اپنے ہم وطنوں اور اپنی قوم کے خیر خواہ نہیں تھے ہمارے وفادار کیسے رہو گے ؟ پھر ان تنظیموں اور پارٹیوں کی بھی خیر نہ ہو گی اس سے پہلے کہ خدا نخواستہ کہیں اس طرح کے حالات پید ا ہوں اور ہمیں ان مصائب کا سامنا کرنا پڑے ہماری قوم کو ضرورت ہے کہ وہ حالات کا باریک بینی سے مطالعہ کرے اوراپنے بچوں کو لقمہ حلا ل کھلا کر ان کی تعلیم و تربیت اسلامی انداز میں کرے اور بچوں کو ہر طرح کا شعور فراہم کرے اُن کو اغیار کے پھیلا ئے ہوئے پھندوں میں پھنسنے سے روکے اور ان کو اسلام کا سپاہی بننے کی تربیت دے ۔ ان کو کفار کی غلا م اور کفار کے لیے کام کرنے والی گمراہ تنظیموں سے بچنے کے لیے اسلام کا درست مطالعہ کروائے ۔ بچوں کو مسجد میں بھیج کر دین کا علم سکھائے ۔ بچوں کے اندر دینی مدارس کی عزت و عظمت کو پروان چڑھائے ۔ بچوں کو اپنے دین وملت کے لیے کام کرنے کی سوچ فراہم کرے ۔ اُنہیں نئے نئے فرقوں اور نئی نئی جماعتوں سے بچنے کا درس دے ۔ جو کہ اسلام کے نام پر لو گوں کو گمراہ کر کے کفار کی مرضی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جھولی میں ڈال دیتی ہیں اورجہاد جیسے مقدس فریضے کے نام پر عوام کو استعمال کر کے اپنے ہی ملک کو تباہ و برباد کرنے کا سامان پیدا کر تی ہیں ۔ بچوں کو بتایا جائے کہ ہمارے ملک کی اسلامی فوج جہاد ہی کے لیے ہے اور ہمیں اُسی فوج کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ ہم اپنی طرح طرح کی جماعتوں کے ذریعے فساد کر کے اللہ کے اس فرمان کے مصداق کا فر اور فسادی ثابت ہو رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس ملک و قوم اور فوج کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں ۔ ہمیں تو متحد ہو کر اپنے ملک کو اسلام کا قلعہ ثابت کر کے یہاں صالح لو گوں کو اس کی قیادت فراہم کر کے پوری دنیا پر عالم اسلام کا پر چم لہرانا تھا لیکن یہ کیا ہم تو اپنے ہی ملک کے خلاف اپنے ہی دین کے خلاف اپنی ہی دینی درس گاہوں کے خلاف کفار کے لیے کام کرنے کو کھڑے ہوگئے اور اس کو جہاد کا نام دے دیا ۔ بھئی جہاد تو مسلمانوں پرفرض ہے اور جو لوگ ہوں ہی کفار کے گماشتے۔۔۔ ۔ کافروں کے ایجنٹ ۔۔۔ تو کیا خیال وہ جہاد کر رہے ہیں یا اسلام کے خلا ف فساد کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم تو اصلا ح کرنے والے ہیں ۔ حالا نکہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ فساد کرنے والے ہیں ۔ یا د رکھیں کے ان فسادیوں کے پیچھے فکری کام ان لو گوں کا ہے جو کفار کے زر خرید غلام تھے ۔ انہوں نے عیسائی انگریز حکمرانوں کے کہنے پر قرآن پاک کے غلط ترجمے کیے اور انگریز حکومت سے شمس العلماء اور’’سر ‘ کے خطابات وصول کرنے کو اللہ کے محبوب کی غلامی اختیار کرنے پر ترجیح دی اور اُن لو گوں نے مسلمانوں کو اپنے ہی مولویوں (علماء)کے خلاف اُبھارا اور مسلمان عوا م کو مولویوں سے اس قدر متنفر کر دیا کہ یہ لو گ انگریزی تعلیم ہی کو زندگی کا معیا ر بنا بیٹھے۔ اور اپنے ہی مولویوں کو جاہل ، تنگ نظر اور نجانے کیا کیا سمجھنے لگ گے ۔ بد بختی ان عوام کی کہ انہوں نے کبھی دینی مدرسے کے کلا س روم میں جاکر دیکھا ہی نہیں تھا کہ وہاں پر امت میں اتحاد کا درس دیا جارہا ہے ۔ وہاں قرآن اور حدیث کو درست انداز میں سمجھنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں ۔ آج سڑکو ں پر فلیکس لگے ہوئے نظر آتے ہیں کہ’’ میں خو د قرآن کا ترجمہ کر سکتا ہوں ‘‘ یہ جملہ آپ کا بھی ہو سکتا ہے ۔ آئیے ایک ماہ قرآن کا ترجمہ کرنا سیکھیں ۔ خدا کا خو ف نہیں ان لو گوں میں ! یہ لو گ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک عالمِ دین بارہ سال کی ڈگریاں حاصل کر کے بھی تفسیر ابن عباس کو پڑھنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے ۔ ترجمہ کنز الا یمان کو پڑھنا سعادت سمجھتا ہے ۔ کیوں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خو د قرآن کا ترجمہ درست نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ عزوجل نے قرآن میں جو فرمایا ہے وہ خو د نبی کریم ﷺ سے بہتر کوئی سمجھا نہیں سکتا اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ نے درست انداز میں وضاحت کے ساتھ قرآن سکھایا ۔ پھر درجہ بہ درجہ قرآن کی تعلیمات ہم تک پہنچی ہیں ۔ کام تو خراب ہوا ہی تب تھا جب اس انگریز کے غلام طبقے نے عیسائیوں کے روپے پرا ن کی غلامی اختیار کرنے کے صلہ میں قرآن کے غلط تراجم کیے اور قوم کو عربی زبان کے لفظی معانوں میں اُلجھا کر گمراہ گیا ۔ مشترقین کے لیے تنقید کے راستے ہموار کیے اور عوام نے ان جھوٹے شمس العماء کو مولوی سمجھ کر ان بد معاشوں کو اپنا خیر خواہ سمجھ لیا۔ عوام سے دست بدستاں التجا ہے کہ خدارا! تحقیق کیجیے اور تاریخ سے معلوم کیجئے کہ 1857کے پہلے فورا بعد کے ادوار میں وہ کس قسم کے مولوی تھے جن کو پھانسی پر لٹکایا گیا جن کے علماء کو کالے پانی یعنی سمندری جزیروں کی طرف جلا وطن کر کے قید کر دیا گیا ۔ اور دوسرے جھوٹے اور جعلی مولوی کون تھے جن کو انگریز کافروں نے شمس العماء کے اور ’’ سر ‘‘ کے خطابات سے نوازا اگر تحقیق کی جائے تو واضح ہو جائے گا کہ جو صحیح العقیدہ اور پرانے عقائد کے علماء تھے انہوں نے اپنا ایمان نہ بیچا ۔ وہ دو ٹکڑے روٹی کے لیے زر خر ید مولوی نہ بن سکے ۔ انہوں نے عیسائی متشرق طبقے کی تحقیقات کی طرز پر قرآن کے غلط ترجمے نہ کیے ۔ انہوں نے کفار کو اپنا آقا نہ مانا ۔ تو اُ ن پر ایک ظلم تو یہ ہوا کہ انگریز کے دور حکومت میں کالج کی تعلیم سے بہرہ ور افراد نے انہیں دقیانوسی اور جاہل گردانا اور مزید ستم یہ کہ قیام پاکستان کے بعد جو تاریخ کی کتابیں لکھی گئیں وہ چونکہ جدید تعلیم یا فتہ طبقے کے قلم سے لکھی گئیں اس لیے اُن قابل قدر ہستیوں کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمان ہیروز میں شمار نہ کیا گیا ۔ بلکہ اُن لو گوں کو ہیرو قرار دیا گیا جو انگریز کے ہم نوا اور انگریز حکومت کو اپنے سرکا تاج سمجھتے تھے اور قرآن پاک کی وہ آیات پڑھ پڑھ کر لو گوں کو کہتے کہ حکومت وقت کا احترام ہمارا فرض ہے ۔ جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حُکام یعنی ( اُولی الا مر ) مسلمان خلفاء اور اُمراء سلطنت کا احترام کرنے کو فرمایا ہے ان آیا ت کا سہارا لے کر عوام الناس کو برٹش ایمپائر کا غلا م بننے کا درس دینے والے لو گ آج ہمارے سکو ل کے سلیبس میں قوم کے ہیرو بتائے جاتے ہیں اور اُس پر فِتن دور میں جن علماء و مشائخ اور مولوی حضرات نے دین کی سر بلندی اور مسلمانوں کی بقا کے لیے جنگ لڑی ان کے نام کسی بھی کھاتے میں درج نہیں کیے گئے ۔ کیونکہ نصاب کو مرتب کرنے والے مصنفین اور قلم کار حضرات کا لج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے فیض یا فتہ ہیں اور یہ ادارے چونکہ قیام پاکستان سے پہلے انگریز حکومت کے زیر نگین یا انگریز حکومت کے سر پرستی میں کام کرتے تھے اس لیے انگریز کی پسندیدہ اور ان کے خطابات سے نوازے گئے لو گ ہی ان اداروں کے پر نسپل تھے اور یہی لو گ تعلیم دیتے تھے قیام پاکستان سے پہلے یہی لو گ اپنے قلم کے ذریعے قوم کو انگریز حکومت کے خلاف جہاد سے منع کرتے تھے اور قیام پاکستان کے حامی بھی نہ تھے یہ لو گ کانگریس کی صفوں میں داخل ہو گئے اور نیشنلسٹ تحریکو ں میں مجوزہ پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہے ۔ لیکن خدا کو پاکستان کا قیام منظور تھا اور محمد علی جناح رحمۃاللہ علیہ جیسی زیرک اور دور اندیش شخصیت میں قوم کا قائد بننے کی صلا حیت موجود تھی ۔ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر قومِ مسلم کو ہندو اور انگریز کی غلا می کا درس دینے والی بے شمار باطل تحریکو ں کے خلا ف قائداعظم کی صرف ایک جماعت مسلم لیگ نے محنت اور اخلا ص نیت سے 1946کے الیکشن میں واضح برتری حاصل کرکے مسلمانانِ ہند کو بتادیا تھا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور باقی سب جھوٹے ، مکار اور لو گوں کا دین و ایمان سلب کر نے والے غدار ہیں ۔ پاکستان تو وجو د میںآگیا لیکن تعلیمی اداروں کا نظام انہی لوگوں کے ہاتھوں میں رہا ۔ مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ کی تقرری کے نیتجے میں ان کے پڑھائے ہوئے نو جوانوں نے 1971میں ملک کا ایک بازو علیحدہ کر کے رکھ دیا ۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پیچھے فکری کام ہند و اساتذہ کا تھا اور ہمارا ایک بڑا حصہ ہندوستان کے زیر نگین ہو گا ۔جبکہ یہاں مغربی پاکستان میں جدید تعلیم یافتہ افراد نے قوم کو ان کے تابناک ماضی سے روشناس نہ کروایا اوران کو دین و ملت کا پا سبان بننے کی تعلیم نہ دی وہ یہ تعلیم دے بھی کیسے سکتے تھے ۔ کیونکہ وہ تو خو د دین کی تعلیمات سے دور تھے۔
بشکریہ :افکار مسلم