Sunday

We condemn attack on Christian Community in Lahore

توہین رسالت کی افواہ پر بادامی باغ لاہور میں مسیحی بستی کے 116گھرنذر آتش ........ یک شخص کی افواہ پر پورا محلہ جلانے والے کس دین کی خدمت کر رہے ہیں؟بادامی باغ لاہور میں مشتعل افراد نے مسیحی بستی میں درجنوں گھروں کو نذر آتش کر دیا‘ مبینہ طور پر اس بستی کے 26 سالہ ساون مسیح پر توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے کا الزام چند دن قبل عائد کیا گیا تھا۔ مصدقہ رپورٹ کیمطابق ساون مسیح کی ایک دوست سے لڑائی کے نتیجے میں دوست نے محلے میں ساون پر توہین رسالت کا الزام عائد کر دیا۔ دو تین روز سے محلے میں ساون کیخلاف باتیں ہو رہی تھیں کہ پولیس نے ممکنہ نقصِ امن عامہ کی اطلاع پر ساون کو حراست میں لے لیا۔ پولیس نے اس بستی کے مسیحی رہائشیوں کو حالات کی نزاکت سے آگاہ کیااور تحفظ فراہم کرنے کی بجائے‘ گھر چھوڑ کر چلے جانے کا مشورہ دیا۔ گزشتہ روز صبح دس بجے

مشتعل لوگوں نے مسیحی گھروں کو آگ لگانا شروع کی‘ چھوٹے چھوٹے گھروں میں آگ تیزی سے پھیلی اور آناً فاناً 116 گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشتعل افراد نے گھر وںمیں گھس کر توڑ پھوڑ بھی کی۔ ان گھروں کے مکین چونکہ پہلے ہی بستی سے جا چکے تھے‘ اس لئے جانی نقصان سے بچت ہو گئی۔ مشتعل افراد نے گھروں کو خاموشی سے جلتے دیکھنے والی پولیس کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس موقع پر بادشاہی مسجد کے خطیب نے موقع پر پہنچ کر ہجوم کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور بالآخر انکی کوششوں سے گروہ منتشر ہو گیا۔  اسلام تو عین فطرت اور انسانیت ہے۔ دین حنیف جیسا انسانیت کا درس کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتا۔ اس میں تو جانوروں کے حقوق بھی موجود ہیں۔ نبی کریم کا غیرمسلموں سے رویہ مثالی تھا۔ ارشاد ربانی ہے‘ ”وماارسلنٰکَ الارحمة اللعالمین“ (آپ کو سارے جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے) نبی مکرم صرف مسلمانوں کیلئے نہیں‘ بلکہ تمام انسانوں کیلئے رحمت ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا‘ جس میں اقلیتوں کو اسی طرح تحفظ کا یقین دلایا گیا تھا‘ جس طرح ریاست مدینہ میں غیرمسلم محفوظ و مامون تھے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کے اس حوالے سے چند ایک فرمودات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ”میں نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ پاکستان کی اقلیتوں کے افراد برابر کے شہری ہیں اور ان کو وہی حقوق و مراعات حاصل ہونگے‘ جو کسی اور فرقے کو۔ کراچی‘ ستمبر 1947ئ“ ”پاکستان ہمیشہ اس پالیسی پر کاربند رہے گا اور اپنی غیرمسلم اقلیتوں میں سلامتی اور اعتماد کا احساس پیدا کرنے کیلئے جو کچھ کیا جا سکتا ہے‘ ضرور کریگا۔ (کراچی ستمبر 1947ئ)لاہور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے 30 اکتوبر 1947ءکو انہوں نے فرمایا‘ ”اسلام کے اصولوں نے ہر مسلمان کو یہ سکھایا ہے کہ وہ بلالحاظ رنگ و نسل اپنے پڑوسی اور اقلیتوں کی حفاظت کرے“۔  اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کریمینل کوڈ میں 295 اور اسکی دفعات کے تحت نہ صرف توہین رسالت کی سخت ترین سزا درج ہے بلکہ اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب‘ فرقے‘ عقیدے کی توہین اور اس سے منسلک نفرتی کارروائیوں کی سخت سزائیں بھی اسی ہی شق میں مقرر ہیں۔ یہ شق اقلیتوں کی حفاظت کی بھی ضامن ہے۔ لاہور کی مسیحی بستی میں جو سانحہ ہوا‘ وہ افسوسناک کے ساتھ ساتھ قابل مذمت بھی ہے۔ کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ توہین رسالت کا مبینہ مرتکب تو پولیس کی حراست میں تھا‘ اہل علاقہ کو خبر ملی تو ہ اس واقعہ کی تحقیقات اور تفتیش کا مطالبہ کرتے۔ پولیس نوٹس نہ لیتی تو پرامن احتجاج کا حق تھا‘ وہ بھی ایسا نہیں کہ کسی بستی کو نذر آتش کردیا جائے۔لیکن کیا وجہ ہے کہ مجرم کو حراست میں لینے اور کارروائی شروع کرنے کے اگلے دن‘ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت سینکڑوں افراد کی بستی کو لاہور جیسے بڑے شہر میں آگ لگا دی گئی؟ محض کسی کی طرف سے انگلی اٹھانے سے کوئی توہین رسالت کا مجرم قرار نہیں پا جاتا۔ کیا ساون نے سرعام توہین رسالت کا ارتکاب کیا؟ جس دوست نے اس پر الزام لگایا‘ اسکی اپنی ساکھ کیا ہے؟ اسکی تحقیقات تو ہونے دی جاتی۔ 116 گھروں کو جلانے کا تو کوئی جواز نہیں بنتا۔ عالمی سطح پر پاکستان پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ کوئی اسے ناکام ریاست اور کوئی دہشتگرد ریاست قرار دے رہا ہے۔ ایسے واقعات سے پاکستان کا امیج دنیا میں مزید گہنا رہا ہے۔ گوجرہ میں چند سال بھی ایسا ہی سانحہ ہوا تھا۔ پاکستان کے پرچم میں سفید رنگ اقلیتوں اور انکے حقوق کے تحفظ کی علامت ہے۔ ساون مسیح نے توہین رسالت کی تو اسے اس کا ملزم صرف اور صرف عدالت قرار دے سکتی ہے۔ گلی محلے کی قیاس آرائی نہیں۔ پولیس یا دیگر متعلقہ ادارے اور ایجنسیاں مکمل تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لائیں‘ ساون کے دوست نے اگر محض اپنے جھگڑے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی تو کیا توہین رسالت قانون کو اپنے مفاد اور کسی کی جان لینے کیلئے استعمال کرنیوالا خود توہین کا مرتکب نہیں ہو جاتا؟ جن لوگوں نے اشتعال میں آکر سو سے زائد گھر جلا ڈالے‘ انہوں نے دین اور ملک کی کیا خدمت کی؟ایک قانون کی موجودگی میں ایسے اشتعال اور جذبات کا کیا جواز ہے جس کے باعث پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی۔ مسیحی گھروں کو جلائے جانے کا نقصان آگ لگانے والوں سے پورا کیا جائے۔ چیف منسٹر پنجاب میاں شہباز شریف نے انکوائری اور سخت کارروائی کا حکم دیا ہے اور بے گھر ہونے والوں دو دو لاکھ روپے ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ بادشاہی مسجد کے خطیب کا کردار احسن رہا کہ انہوں نے مزید گھروں کو نذر آتش ہونے سے بچالیا۔ ایسی ہی توقع ہر پاکستانی اور مسلمان سے ہے کہ وہ اقلیتوں اور انکے حقوق کا تحفظ کرکے اپنے آپ کو قائد کے پاکستان کا رکھوالا ثابت کریں۔بشکریہ نوائے وقت

No comments:

Post a Comment